کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 119
ہے تو اس کی تردید میں پرویز صاحب یہ کہا کرتے تھے کہ
”اقبال کی طرف منسوب ان قصوں کا جواب یہ ہے کہ یہ اس زمانے یا ان لمحات کی باتیں ہیں جب قرآنی حقائق سے وہ متعارف نہیں ہو ئے تھے، یا وہ ان کی نگاہوں سے اوجہل ہوگئے تھے۔“[1]
چکمہ بازی اور مغالطہ آرائی میں … بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر … فریب کاری اور دھوکہ دہی میں ’مفکر قرآن‘ جناب چوہدری غلام احمد پرویز صاحب کا ایسا بلند مقام تھا کہ کوئی بڑے سے بڑا فریب کار بھی ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ یہاں اُنہوں نے عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اُدہوری بات پیش کی ہے، اور اسی بنا پر اپنے اس مفروضہ کو حقیقت کا جامہ پہنا کر پیش کیا ہے کہ تصوف اور قرآن گویا بنیادی طور پر ایک دوسرے کے خلاف اور باہم د گر نقیض و متضاد ہیں ، حالانکہ اپنے مقصودِ اصلی اور غایت اولیٰ کے اعتبار سے، اور زہد وتقویٰ کے مفہوم میں ’تصوف‘ قرآن کا مقصود و مطلوب ہے۔ تصوف آخر اس کے سوا کیا ہے کہ وہ پاکیزگی نفس ، تطہیر قلب، رجوع الیٰ اللہ اور اخلاص فی العمل کا نام ہے، خود طلوعِ اسلام میں پرویز صاحب ہی کے قلم سے، انہی اُمور کو ’تصوف‘ کہا گیا ہے :
”اعمال میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے، اخلاص نہ ہو تو پھر اعمال یا محض ریاکاری ہوجاتے ہیں یا مشینی عمل کہ جس میں حرکت تو ہوتی ہے لیکن روح مفقود۔ جب عوام میں کچھ ظاہرداری آنے لگی تو حقیقت بیں نگاہوں نے اخلاص پر زور دیا، اور اعمال کے اصل مقصد یعنی تزکیہٴ نفس، صفائی قلب، اِنابت الیٰ اللہ اور خشیت ِباری تعالیٰ کی طرف توجہ دلائی،یہ سمجھئے تصوف کی اصل۔“[2]
اب اگر تصوف کی اصل یہی ہے توپھر نہ تو یہ قرآن سے کوئی الگ اور جداگانہ چیز ہے، اور نہ ہی اسلام سے کوئی متناقض یا متصادم تصور۔ قرونِ اولیٰ میں فی الواقعہ یہ تصوف موجود تھا، مگر یھ نام موجود نہ تھا، آج یہ نام موجود ہے، لیکن وہ حقیقی تصوف موجود نہیں ہے۔ لاریب اصل اور حقیقی تصوف میں آج کچھ ایسے اُمور بھی شامل ہوچکے ہیں جو قرآن و سنت سے بیگانہ ہیں ۔
بہرحال ’مفکر قرآن‘ نے تصوف کے معاملہ میں پہلا مغالطہ تو یہ دیا ہے کہ اسے قرآن کے