کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 116
3. احادیث ِ صحیحہ کا انکار:غامدی صاحب نے اپنی مذکورہ عبارت کے ذریعے کئی احادیث ِصحیحہ کا انکار بھی کرڈالا ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ صحیح احادیث (جو تواتر کی مانند ہیں ) میں شادی شدہ زانی کے لئے رجم، یعنی سنگساری کی سزا موجود ہے جو کہ موت کی سزا ہے۔ اسی طرح احادیث ِصحیحہ میں مرتد کیلئے موت کی سزا مقرر ہے۔ غامدی صاحب نے ایک ہی سانس میں ان دونوں شرعی حدود کا انکار کردیاہے۔ ان کی یہ حرکت دیگرمنکرین حدیث کی طرح کا صریحاً انکار ِحدیث اورانکار ِ سنت ہے اور قرآن و سنت کے باہمی تعلق کو ختم کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ کیونکہ حدیث و سنت دراصل قرآن ہی کی شرح ہے اور حجت اور واجب الاطاعت ہے۔ مگر غامدی صاحب کا حال یہ ہے کہ وہ سنت سے ثابت شدہ بہت سے احکام کے منکر ہیں ۔
4.اجماعِ اُمت کا انکار :غامدی صاحب کی مذکورہ عبارت میں اجماعِ اُمت کا انکار بھی پایا جاتا ہے کیونکہ اس بات پر اجماعِ اُمت نہیں ہے کہ شریعت میں موت کی سزا صرف دو جرائم(قتل اور فساد) ہی پر ہے بلکہ اجماعِ اُمت کی رُو سے شادی شدہ زانی اورمرتد دونوں کے لئے بھی موت کی شرعی سزا مقرر ہے اور ان دونوں جرائم … شادی شدہ شخص کے زنا اور ارتداد کی سزاے موت … کے غامدی صاحب منکر ہیں ۔
5. اسلامی شریعت کا انکار :غامدی صاحب کا یہ دعویٰ کہ صرف دو جرائم ہی پر موت کی سزا ہے یا تو اسلامی شریعت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے یا پھر خانہ ساز شریعت ایجاد کرنے کے شوق کا شاخسانہ ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں صرف مذکورہ دو جرائم (قتل اور فساد) ہی پر موت کی سزا مقرر نہیں ہے بلکہ اور بھی کئی جرائم پر موت کی سزا مقرر ہے، جیسے شادی شدہ زانی کے لئے سنگساری اور مرتد کے لئے سزاے موت۔ لہٰذا غامدی صاحب نے اپنی مذکورہ عبارت کے ضمن میں اسلامی شریعت کے حدود و تعزیرات کا بھی انکار کردیا ہے۔
خلاصہ کلام:منکر حدیث جناب جاوید غامدی کا یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ موت کی سزا قرآن کی رُو سے قتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں بھی نہیں دی جاسکتی۔ پورے قرآن مجید میں کہیں بھی اس طرح کی کوئی تحدید نہیں کی گئی کہ ان دو جرائم کے سوا اللہ تعالیٰ کے قانون میں کسی فرد یا حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص کو موت کی سزا دے۔ اگر غامدی