کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 115
آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور اسی طرح زخموں کا بھی ویسا ہی بدلہ لینا ہے۔ پھر جو کوئی معاف کردے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا او رجو اللہ کے نازل کئے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی ظالم ہیں ۔“
سورة المائدة کی جس آیت سے غامدی صاحب نے موت کی سزا کو صرف دو جرائم تک محدود کردیا ہے، اُس آیت کو دوسرے تمام مفسرین کی طرح اُن کے استاد ’امام‘ امین احسن اصلاحی بھی اسلامی حدود و تعزیرات کا ماخذ نہیں سمجھتے بلکہ انہوں نے بھی اس آیت کے مضمون کو یہودیوں سے متعلق قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی تفسیر ’تدبر قرآن‘ میں مذکورہ آیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
﴿ أنَّه مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِىْ الاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا وَمَنْ اَحْيَاها فَكَاَنَّمَا اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا ﴾ ”یہ اُس اصل حکم کا بیان نہیں ہے جو قصاص کے باب میں یہود کو دیا گیا بلکہ اس کی دلیل اور اس کی حکمت و عظمت بیان ہوئی ہے۔ ’جان کے بدلے جان‘ کا قانون تورات میں بھی ہے اوراس کا حوالہ اس سورہ میں بھی آگے آرہا ہے۔ یہاں چونکہ مقصود یہود کی شرارت وشقاوت کو نمایاں کرنا ہے، اس وجہ سے قانونِ قصاص کا اصل فلسفہ بیان فرمایا گیا۔ یہود پرقتل نفس کی سنگینی واضح کرنے کے لئے ان کو یہ حکم اس تصریح کے ساتھ دیا گیا تھا کہ ایک کا قاتل سب کا قاتل اور ایک کا بچانے والا سب کا بچانے والا ٹھہرے گا۔ لیکن پھر وہ قتل اور فساد فی الارض کے معاملے میں بالکل بے باک ہوگئے۔“ (تدبر قرآن: جلد2/صفحہ 503)
لہٰذا یہ غامدی صاحب کی تحریف ِقرآن اور مذموم تفسیر بالرائے کا شاخسانہ ہے کہ اُنہوں نے المائدة کی آیت مذکورہ کو اس کے سیاقِ کلام سے کاٹ کر اس کا صرف ایک تہائی ٹکڑا لکھ کر اس سے وہ معنی نکالے جو اس کے استاد ’امام‘ سمیت آج تک کسی مفسر نے نہیں نکالے کہ اسلام میں موت کی سزا صرف دو جرائم پر دی جاسکتی ہے اور ’اللہ تعالیٰ نے اسے پوری صراحت‘ سے بیان فرما دیا ہے جس کے بعد کسی فرد یا حکومت کو دو جرائم (قتل اور فساد فی الارض) کے سوا کسی اور جرم میں موت کی سزا دینے کا کوئی حق نہیں جبکہ اہل علم جانتے ہیں کہ قتل کے قصاص کا قانون تو سورة البقرة کی آیت 178 میں بیان ہوا ہے اور فساد فی الارض یا محاربہ میں موت کی سزا کا قانون سورة المائدة کی آیت 33 میں مذکور ہے۔
زیر بحث آیت کا موت کی سزا کے قانون سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ تلعب بالقرآن ہے جو غامدی صاحب کا مشغلہ ہے کہ وہ زنا کی سزاے رجم بھی المائدة: 33 سے نکال لیتے ہیں ۔