کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 112
اولاد میں ہبہ کے وقت برابری کا حکم، بعض اولاد کو دی گئی جائیداد کا حکم
سوال6: ایک شخص نے اپنے جوان بیٹے کو علیحدہ کردیا اور تقریباً سو بیگہ زمین گزارے کے لئے دے دی اور ایک پختہ مکان بھی دیا، جس میں اس کی رہائش تھی۔ اس کا ایک اور بیٹا بھی تھا اور تین بیٹیاں بیاہی ہوئی تھیں لیکن ان کو کچھ نہیں دیا، اب یہ لڑکا فوت ہوگیا۔ متوفی صاحب ِ اولاد تھا، دادا نے وہ زمین گزارا کے لئے متوفی کی اولاد کو دے چھوڑی، اب دادا بھی مرگیا ہے۔ متوفی کی اولاد کا چچا سے تقاضا ہے اور وہ نصف حصہ مانگتی ہے۔ ان کو دادا نے جو زمین دے رکھی ہے، کیا شرعاً ان کو ملے گی یا وہ بالکل محروم ہوجائیں گے۔
جواب : اولاد میں سے بعض کو دینا اور بعض کو نہ دینا یہ شرعاً ناجائز ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ والی مشہور حدیث اس سلسلے میں بالکل واضح ہے۔البتہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتوں کو کچھ ہبہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ پوتے شرعاً وراثت سے محروم ہیں ۔ پس پوتوں کو جو دادا نے دیا ہے، وہی ان کا حق ہے۔ بعض بیٹوں کا ہبہ بغیر دوسرے کی رضا مندی کے صحیح نہیں ۔پس جو کچھ باپ دے گیا، وہ بھی ترکہ میں شامل کرکے بدستور ترکہ /قبضہ تقسیم ہونا چاہئے۔
تحفہ دینے والے کا اپنی تحفہ کی ہوئی شے خریدنا
سوال7: دو بھائی ترکہ کے حصہ دار تھے، باپ مرگیاتو ایک بھائی نے اپنا حصہ بھائی کے حق میں چھوڑ دیا۔ اب اس ترکہ میں سے معاف کنندہ کو دوسرے بھائی سے کوئی چیز خریدنا روا ہے یا نہیں ؟
جواب: ایسا معاف کرنا دراصل ہبہ کی قسم سے ہے، اس کے خریدنے میں بظاہر کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ کسی حدیث میں مجھے ہبہ کے خریدنے سے ممانعت تو یاد نہیں پڑتی، ویسے بغیر خریدنے کے رجوع کی ممانعت آئی ہے۔ البتہ اگر معاف کرنے والے نے اپنے بھائی پر صدقہ کی نیت کی تھی تو اسے خریدنا منع ہے۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو منع کرتے ہوئے فرمایا :
(لاَتَشْتَرِه وَإِنْ أَعْطَاكَه بِدِرْهمٍ وَاحِدٍ فَإِنَّ الْعَائِدَ فِي صَدَقَتِه كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِه) (صحیح بخاری:2632، صحیح مسلم: 4139) ”اگر وہ تمہیں یہ گھوڑا ایک درہم کے عوض بھی دے، تب بھی مت خریدنا کیونکہ صدقہ کرکے اسے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے اور پھر خود ہی اسے چاٹ لیتا ہے۔“