کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 111
3. ہبہ بلا قبضہ کا کیا حکم ہے؟ جواب : نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صراحت ہے کہ اولاد میں عدل کرو۔ پس کسی ایک کے نام جائیداد کردینا، چاہے وہ بیٹی ہو یا بیٹا، یہ امر حدیث کے خلاف ہے۔ زید کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ تمام جائیداد بکر کے نام کرتا اور اب بکر کو بھی اجازت نہیں کہ وہ اس جائیداد پر قبضہ کرے۔تلخيص الحبيرمیں ہے: إن أبا بكر نحل عائشة جذاذ عشرين وسقا فلما مرض قال ودِدت أنك حزيتية أو قبضتيه وإنما هو اليوم مال الوارث. مالك في الموطأ عن شهاب بن عروة عن عائشة به وأتم منه رواه البيهقي من طريق ابن وهب عن مالك وغيره عن ابن شهاب عن حنظلة بن أبي سفيان عن القاسم بن محمد نحوه وقد روي الحاكم أن النبى صلی اللہ علیہ وسلم أهدى إلى النجاشي ثم قال لأم سلمة إنى لأرى النجاشي قد مات ولأرى الهدية التي أهديت إليه إلا سترد فإذا رددت إلي فهي لك فكان كذلك... الحديث (رقم:1328،1329) ”حضر ت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اَسّی من کھجور ہبہ کی۔ جب آپ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے تو فرمایا: میں چاہتا تھا کہ تو کھجوروں کو اپنے قبضہ میں کرلیتی کیونکہ آج وہ وارث کا مال ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو موطأ میں روایت کیا ہے اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو بطریق وہب، امام مالک وغیرہ سے روایت کیا ہے اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کو ایک تحفہ بھیجا۔ پھر اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہا: میں دیکھتا ہوں کہ نجاشی فوت ہوگیا ہے اور جو تحفہ میں نے اس کو بھیجا تھا، وہ ضرور لوٹا دیا جائے گا ۔پس جب وہ واپس آئے تو وہ تیرے لئے ہے ،چنانچہ اسی طرح ہوا۔ “ ان دونوں روایتوں سے ثابت ہوا کہ ہبہ میں قبضہ ضروری ہے۔ اگر صرف ہبہ کردینے سے ہبہ مکمل ہوجاتا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ نہ کہتے کہ ”آج وہ مال وارث کا ہے۔“ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے کہ ”جب واپس آئے تو وہ تیرے لئے ہے۔“ بلکہ اس کے حق دار نجاشی کے ورثا ہوتے۔