کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 110
میں برابری کا حکم آیا ہے، دوسرے ورثا کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں فرمایا۔ ہاں مرضِ موت میں اس کی اجازت نہیں کیونکہ مرضِ موت کا ہبہ درحقیقت وصیت ہے، ایسے ہی حدیث میں ہے کہ (لاوصية لوارث) یعنی ”وارث کے لئے وصیت نہیں ۔“(ترمذی:2120) ہندہ کا ہبہ مذکورہ تکمیل کو نہیں پہنچا۔کیونکہ ہبہ میں موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا گیاہے) کا قبضہ شرط ہے جوہبہ مذکورہ میں نہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کچھ ہبہ کیا، مگر حضرت عائشہ نے اس پر قبضہ نہ کیا، اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، موت کے آثار نمودار ہوئے تو فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! تو نے قبضہ نہیں کیا۔ اب یہ مال ترکہ میں شامل ہے اور اس میں تجھے کوئی خصوصیت حاصل نہیں ۔ یہ روایت تلخيص الحبير کتاب الہبہ میں مذکور ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ہندہ کا ہبہ مکمل نہیں ہوا، اس لئے دیگر ورثا بھی اس میں حصہ دار ہیں ۔ جس ہبہ سے شرعی وارث محروم ہوں ، اس کا حکم سوال5: زید کا ایک بیٹابکر اور تین بیٹیاں ہندہ، کلثوم اور خدیجہ ہیں ۔ زید اپنے لڑکے بکر کے ساتھ رہتا ہے۔ بیٹے بکر نے اپنی بہنوں اور اپنی بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنے کی غرض سے اپنے باپ زید پر ناجائز دباؤ ڈال کر کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو اپنے بیٹوں کے نام سے ہبہ بلا معاوضہ کرالیا جس کو تقریبا آٹھ نو سال گزرگئے۔ لیکن عملاً زید اسی مکا ن میں بودوباش رکھتا ہے اور اس نے کبھی مکان کا تخلیہ کرکے اسے خالی نہیں کرایا۔ چند روز ہوئے کہ زید فوت ہوگیا اور اس کے وارث مذکورہ تینوں لڑکیاں اور ایک لڑکا بکر ہے۔ ہندہ نے جب اپنے بھائی بکر سے ترکہ طلب کیا تو بکر نے جواب دیا کہ والد کی جو کچھ جائیداد تھی، خود ان کے حین حیات میں ہبہ ہوچکی ہے، البتہ انہوں نے کچھ ذاتی رقم خرچ کے لئے علیحدہ رکھی ہوئی تھی، ان میں سے جو کچھ بچا ہوگا، اس میں سے تم کو حصہ مل جائے گا، سوال یہ ہے کہ 1. ایسا ہبہ جس سے ورثاء شرعی محروم ہوں اور وہ غیر وارث کو مل جائے، کیا جائز ہے یا نہیں ؟ 2. آیا بیٹیوں کو اپنے باپ کی وراثت میں سے حصہ ملے گا یا نہیں اور یہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے واقعہ أ كلّ أولادك نَحَلتَ (کیاتم نے تمام اولاد کو ایسا ہی تحفہ دیا ہے؟) کے ضمن میں داخل ہے یا نہیں ؟