کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 107
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے یہ بات پسندہے کہ تیری اولاد تیرے ساتھ برابر نیکی کرے؟ کہا: ہاں تو آپ نے فرمایا: پس میں اس ہبہ پر گواہ نہیں بن سکتا۔“(ایضاً) ان الفاظ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ تحفہ / ہبہ وغیرہ میں لڑکے اور لڑکیوں میں فرق نہیں ، کیونکہ عموماً والدین چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد ہمارے ساتھ برابر نیکی کرے، خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ اس بارے میں لڑکے اور لڑکیوں میں برابری کی جائے۔مذکورہ حدیث کی بعض روایتوں میں اگرچہ اولاد کے عام لفظ کی جگہ بیٹوں کا لفظ بھی آیا ہے مگر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری (10 /539) میں کہا ہے کہ اگر صرف لڑکے ہی ہوں اور اگر لڑکے لڑکیاں دونوں ہوں تو پھر لڑکوں کا ذکر محض غلبہ کی بنا پر ہے، اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بحوالہ ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ ، نعمان رضی اللہ عنہ کے والد کی ایک بیٹی کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کا نام اُبیّہ ہے جس سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ جن روایتوں میں لڑکوں کا ذکر ہے وہ محض غلبہ واکثریت کی بنا پر ہے جیسے والد اور والدہ ، دونوں کو والدین ہی کہہ دیتے ہیں ا ورحافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ حدیث میں تسویہ (برابری کرنے کا حکم) اسی امر کی طرف شہادت دیتا ہے کہ لڑکے لڑکیوں میں فرق نہیں ، پھر اس کی تائید میں ایک روایت بھی ذکر کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :(سووا بين أولادكم في العطية فلو كنت مفضلا أحدا لفضلت النساء) (بیہقی:6/177) یعنی ”اولاد کو عطیہ دینے میں برابری کرو۔ پس اگر میں کسی کو فضیلت دیتا تو عورتوں کو دیتا۔“ اس حدیث کی اسناد میں اگرچہ علامہ شوکانی نے نیل الاوطار ( 5/242) میں سعید بن یوسف نامی راوی ضعیف بتایا ہے مگر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : وإسنادہ حسن یعنی اس کی اسناد حسن ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی ضعف ہوگا جس سے حدیث صحت کے درجہ سے نکل کر حسن کے درجہ کو پہنچ گئی، مثلاً حافظہ میں معمولی نقص ہوگا وغیرہ۔ بھرصورت اس حدیث سے تائید ضرور ہوتی ہے۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ عطیہ میں لڑکے اور لڑکیوں میں برابری کی جائے۔ نوٹ:اس حدیث سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ اولاد میں ضروریات اور حوائج کے اندر برابری کا حکم نہیں بلکہ عطیہ میں برابری کا حکم ہے، جیسا کہ اوپر تحقیق ہوچکی ہے کیونکہ