کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 106
قسم کے عطیہ کا ذکر ہے اور ایک حدیث میں تصریح آتی ہے کہ سوّوا بين أولادكم في العطية (بیہقی:6/177) چنانچہ فتح الباری کے حوالہ سے اس کا ذکر آگے آتا ہے، یعنی ضروریات کے علاوہ کوئی عطیہ دینا ہو تو اس میں برابری ضروری ہے۔ اسی بنا پر علما نے لکھا ہے کہ اگر کوئی سبب ایسا پیدا ہوجائے جس سے بعض اولاد کو عطیہ دینا پڑے تو اس صورت میں بعض کو دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ، مثلاً کوئی دائم المرض یامقروض ہو تو اس صورت میں ان کو خاص بھی کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری ( 10/546) میں اس کی تصریح کی ہے اور علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیل الاوطار ( 5/242) میں بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یھی ہے کہ یہ درحقیقت عطیہ نہیں بلکہ اولاد کی ضروریات میں داخل ہے کیونکہ دائم المرض اور مقروض ہونا ایک بڑی ضرورت اور مجبوری ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ ضروریات تو کجا، اس عطیہ میں بھی برابری نہیں جو ضروریات میں داخل ہو۔ ہبہ کی برابری میں بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی فرق ہے یا نہیں ؟ سوال2:اولاد کو دیے جانے والے تحفہ میں مساوات ضروری ہے یا مثل وراثت لڑکی کا حصہ لڑکے کے نصف ہوگا؟ جواب:عطیہ میں بیٹے بیٹیوں میں برابری کا حکم ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حدیث میں (لا أشهد على جور) فرمایا ہے، اس میں یہ بھی ہے أ كلّ ولدك نحلتَ مثله(صحیح مسلم:1623) یعنی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :جب میرے والد نے مجھے ایک غلام ہبہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ بنانا چاہا توآپ نے فرمایا: ”کیا اپنی تمام اولاد کو تو نے اس کے مثل ہبہ کیا ہے؟“ میرے والد نے کہا: نہیں ۔ تو آپ نے فرمایا:اس ہبہ سے رجوع کرلے اور ایک روایت میں ہے کہ کیا تو نے اپنی باقی اولاد کوبھی اس کی مثل دیا ہے؟ کہا:نہیں ، تو فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اولاد میں عدل کرو۔ ان الفاظ ” اس کے مثل ہبہ کیا ہے یا اس کی مثل دیا ہے؟“ سے معلوم ہوتا کہ اس بارے میں ذکور واُناث میں کوئی فرق نہیں کیونکہ اولاد کا لفظ لڑکے اور لڑکیوں سب کو شامل ہے۔ اور اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں :قال(أيسرّك أن يكونوا إليك في البرّ سواء؟)قال بلى قال:(فلا إذًا)