کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 105
یہی صورتحال بیویوں کے بارے میں بھی ہے کہ ان میں بھی برابری کا حکم ہے مگر اس قسم کے اُمور میں ان کے درمیان بھی تفاوت ہوجاتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے مہر مختلف تھے۔ ولیمے مختلف اور ان سے بات چیت مختلف تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو سفر میں ساتھ لے گئے مگر رات کو اپنی سواری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سواری کے ساتھ رکھتے اور انہی سے بات چیت کرتے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو اس بات سے بڑی غیرت محسوس ہوئی۔ چنانچہ یہ لمبا قصہ صحیح بخاری میں باب القرعة بين النساء إذا أراد سفرًا میں موجود ہے۔ اس طرح محبت میں بھی برابری نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ اختیاری شے نہیں بلکہ طبعی ہے۔ ایسے ہی جب تک طبعی میلان نہ ہو مباشرت وغیرہ بھی نہیں ہوسکتی۔ البتہ ہر گھر میں باری باری جانا اختیاری شے ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باری تقسیم کرنے کے بعد فرماتے (اللهم هذه قسمتي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك) (ترمذی:1140) ” یا اللہ! یہ میری تقسیم ہے اس شے میں جس کا میں اختیار رکھتا ہوں ، پس جس کا تو اختیار رکھتا ہے اور میں نہیں رکھتا، اس میں مجھے ملامت نہ فرما۔“ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حوائج ِضروریات اور تربیت میں برابری ناممکن ہے بلکہ ان میں وہی یتیموں والا اُصول مدنظر رکھنا چاہئے یعنی ﴿وَالله يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ﴾(البقرة:220) ”خدا مفسد کو اصلاح کرنے والے سے جانتا ہے۔“ جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے ہر ایک کی اصلاح اوربھلائی کی کوشش ہونی چاہئے، آگے ان کے اور والدین کے حسب ِحال کسی بات میں تفاوت ہوجائے تو اس پر موٴاخذہ نہیں ۔ البتہ حوائج اور ضروریات کے علاوہ زائد عطیہ میں ضرور برابری چاہئے۔ چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث میں جو نعمان رضی اللہ عنہ بن بشیر سے مروی ہے کہ سألت أمي أبي بعض الموهبة لي من ماله،ثم بدا له موهبها لي فقالت: لا أرضى حتى تشهد النبي فأخذ بيدي وأنا غلام فأتى بي النبي فقال: إن أمه بنت رواحة سألتني بعض الموهبة لهذا قال: (ألك ولد سواه؟( قال:نعم قال: فأراه قال:(لا أشهد على جور) “ (بخاری:2650،مسلم:1623) آپ کے فرمان (لا أشهد على جُور)”یعنی میں ظلم پر شہادت نہیں دیتا۔“ میں اسی