کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 104
پیاس نہیں ہوتی تو اس کی خاطر دوسرا بھوکا نہیں رہ سکتا، کبھی ایک شخص ایک روٹی کھاتا ہے تو دوسرا دو یا تین کھا جاتا ہے۔ اسی طرح بیماری وغیرہ میں بھی پیسے کم و بیش خرچ ہوتے ہیں ، سب سے احتیاط والی چیز یتیموں کا مال ہے، جس کے متعلق قرآنِ مجید میں سخت وعید بھی آئی ہے کہ جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے ہیں ، وہ اپنے پیٹوں میں آگ ڈالتے ہیں ۔ اسی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے یتیموں کا کھانا دانہ الگ کردیا مگر جب اس کا نبھنا مشکل ہوگیا تو ارشادِ خداوندی ہوا: ﴿وَإِنْ تُخَالِطُوْهمْ فَاِخْوَانُكُمْ وَالله يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ﴾(البقرة:200) ”یعنی اگر ان کو اپنے ساتھ ملا لو تو تمہارے بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ فسادی اور مصلح کو خوب پہچانتاہے۔“ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اکٹھے خرچ میں مساوات کی کوئی صورت نہیں بلکہ ہر ایک کی ضرورت کے بقدر خرچ ہوتا ہے، کوئی کھانا زیادھ کھاتا ہے، کوئی کم اورکسی کے وجود پرکپڑے کا خرچ کم ہوتا ہے توکسی کے وجود پر زیادہ ،کیونکہ ان کے قدوقامت بھی برابر نہیں ہوتے۔ کسی کا وجود کمزور ہے، اس کو سردی میں زیادہ گرم کپڑے کی ضرورت ہے توکسی کو ہلکا کافی ہے ۔کسی کے وجود پرکپڑا جلدی پھٹتا ہے اور وہ سال بھر میں کئی جوڑے چاہتا ہے، کوئی کم،بالخصوص لڑکیوں کے کپڑوں پر زیادہ خرچ ہوتا ہے بلکہ ساتھ ان کے زیور کا خرچ بھی ھے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں بھی ہے: ﴿أَوَ مَنْ يُنَشَّأُ فی الْحِلْيَةِ﴾(الزخرف:18) ”لڑکیوں کی پرورش زیورات میں ہوتی ہے۔“ پھر بیماریوں وغیرہ کے موقع پر دواؤں پر اور حکیموں ، ڈاکٹروں کی فیسوں میں ایک انداز پر خرچ نہیں ہوتا۔ اس طرح بیاہ شادی پر مختلف خرچ ہوتا ہے، کیونکہ لڑکی بیگانی ہوتی ہے، لڑکے والے جو چاہتے ہیں ، خرچ کراتے ہیں ۔ اس طرح لڑکیوں کی شادی میں ایک قسم کے لڑکے نہیں ملتے اور نہ لڑکیاں ایک صفت، ایک لیاقت کی ہوتی ہیں تو پھر خرچ میں برابری کی کیا صورت ہے؟ اس طرح اولاد کی تربیت میں بھی تفاوت ہوتا ہے۔ ان کی لیاقت، استعداد اور ذہانت و طبیعت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں ۔ کسی کو طبابت، ڈاکٹری، کسی کو انجینئرنگ، کسی کو تجارت اور کسی کو عالم دین بنا کر خادمِ اسلام بنا دیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو بھی ان کے حسب ِحال تعلیم دی جاتی ہے تو ان کے خرچ و اخراجات برابر کس طرح ہوسکتے ہیں ؟