کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 103
دار الافتاء حضرة العلام حافظ عبداللہ محدث رحمۃ اللہ علیہ روپڑی
اولاد کو تحفہ وغیرہ دینے کے شرعی احکام
ماں باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کئی چیزیں عنایت کرجاتے ہیں ، ایسے ہی اُنہیں کسی بیٹے یا بیٹی سے طبعاً زیادہ محبت بھی ہوتی ہے لیکن اسلامی شریعت نے اس سلسلے میں چند ایک اُصول مقرر فرمائے ہیں جن کو پیش نظر رکھنامسلم والدین کے لئے ضروری ہے۔ اس نوعیت کے مسائل مسلم معاشرہ میں اکثر وبیشتر پیش آتے رہتے ہیں ، زیر نظر مضمون میں ایسے ہی احکام سوال وجواب کی صورت میں بیان ہوئے ہیں ۔ واضح رہے کہ ہبہ کالفظ عربی زبان میں کسی شے کو تحفت دینا ،گفٹ کردینا ، عطیہ دینا وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔بعض جزوی اصلاحات ، حوالہ جات اور ترتیب کے بعد یہ مضمون ہدیہٴ قارئین ہے۔ ح م
اولاد میں برابری کا حکم کس نوعیت کے اُمور میں ہے؟
سوال 1: حدیث ِنبوی کی رو سے اولاد کے درمیان مساوات کرنا چاہئے۔ اگر والدین اولاد کا نکاح کریں تو عموماً زیورات، پارچہ جات وغیرہ میں والدین کی طرف سے کمی بیشی ہوجاتی ہے۔ اگر ایک بیٹے کو تعلیم میں لگایا تو اس کے اخراجات کے متحمل بھی والدین ہی ہوتے ہیں ، حالانکہ بعض اوقات دوسری اولاد پر اتنا خرچ نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح کسی کو مکان لے کر دیا کسی کو کچھ اور کسی کو کچھ، اور مساوات کا لحاظ نہیں رکھا گیا، تو سوال یہ ہے کہ
شریعت نے اولاد کو دیے جانے والے ہر عطیہ میں مساوات ضروری رکھی ہے۔ اگر یہی بات ہے توپھر یہ امر انسان کی طاقت سے باہر ہے اورارشادِ الٰہی ہے: ﴿لَا يُكَلِّفُ الله نَفْسًا إِلَّا وُسْعَها﴾ اگر ایسا نہیں تو پھر فرمانِ نبوی (لا أشهد على جور) (میں ظلم پر گواھ نہیں بن سکتا )جو مسلم کی حدیث میں وارد ہے، اس کے کیا معنی ہوئے؟
جواب : اکٹھے خرچ میں تو مساوات بیگانوں میں نہیں ہوسکتی، ایک گھر میں کس طرح ہوگی؟ مثلاً سفر میں دو شخص اپنا خرچ ایک جگہ کریں تو ضرور کمی بیشی ہوگی۔ ایک وقت ایک کو بھوک