کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 102
”یہ علم سے بہرا ہوا ظرف ہے۔“ (مستدرک، مناقب ابن مسعود 3/318)
روایت ِحدیث میں شدید احتیاط کے باوجود ان کی مرویات کی تعداد آٹہ سو اڑتالیس (848) ہے۔
9. عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
اپنے والد سے قبل اسلام قبول کیا، احسان کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے والد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کے راہبانہ طرزِ عمل کی شکایت بھی کی تھی۔ اکثر دربارِ رسالت میں حاضر رہتے اورجو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے، اسے لکھ لیتے۔ آپ نے اُنہیں اس کی صریح اجازت بھی دی تھی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان پر رشک بھی تھا اور اعتراف بھی کرتے کہ ان کی احادیث مجھ سے بھی زیادہ تھیں ، ا س لئے کہ وہ لکھ لیتے اور میں صرف یاد کرتا تھا۔
صحابہ کرام رحمۃ اللہ علیہ میں سب سے پہلے حدیث کے مدوّن و کاتب ہیں ۔ ان کا الصحيفة الصادقة بہت مشہور و مستند تھا۔ مسائل دریافت کرنے پر اس کی مراجعت کرکے جواب دیا کرتے تھے۔ ان کا حلقہ درس بڑا وسیع تھا اور اسے بین الاقوامی شہرت حاصل تھی۔ اہل بصرہ نے خصوصاً ان سے بہت کسب ِفیض کیا۔ ان کی مرویات کی تعداد سات سو پچاس (750) ہے۔ بعد میں سیاسی اُمور میں مشغول ہونے کی وجہ سے انکی سند سے زیادہ احادیث نشر نہیں ہوسکیں ۔
ان تصریحات سے واضح ہوگیا ہے کہ عہد ِصحابہ میں سرکاری اور نجی دونوں سطح پر حفاظت حدیث کے لئے بھرپور اہتمام تھا جو بعد میں بھی باقاعدہ فن کی حیثیت سے اُصول و ضوابط کے تحت جاری رہا۔ حتیٰ کہ حدیث نبوی بڑے اسفار کے ذریعے حاصل کی جاتی رہی اور آخرکار کتب حدیث میں مدون ہوکر ہر قسم کے شبہات سے بالا ہوگئی۔ الحمد لله على ذلك
اوپر جن صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر ہوا، یہ وہ عظیم لوگ ہیں جن کی کثرتِ روایت معروف ہے۔ انہی کے ذریعے زیادہ روایات اُمت کے پاس پہنچی ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک شخص اس قابل ہے کہ طلباے علم خصوصاً اور عام اہل اسلام عموماً ان کی سیر و سوانح کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مقدس، قرآنِ کریم اور اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت کی حفاظت جن پاک طینت لوگو ں سے کروائی، ان کی ظاہری و باطنی صفائی کی شہادت خود آسمان سے نازل فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت سے منور فرمائے! آمین