کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 101
السدوسی کہا کرتے تھے:
”لأنا لصحيفة جابر أحفظ مني لسورة البقرة“ (التاریخ الکبیر: 4/186)
”مجھے جابر بن عبداللہ کا صحیفہ سورہ بقرہ سے بھی زیادہ یاد ہے۔“
7. حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ
بڑے ہی عالم باعمل صحابی رسول تھے۔ان چند صحابہ میں سے تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خصوصی عہد و پیمان کیا تھا کہ دینی اُمور میں وہ کسی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔ اُنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ خلفاے اربعہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔ ان کی مرویات کی تعداد ایک ہزار ایک سو ستر (1170) ہے۔
8. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
بڑے امین اور دیانت دار تھے۔ قبل از اسلام بکریاں چرایا کرتے تھے۔ یہی بکریاں ان کے اسلام لانے کا باعث بنیں ۔ ہجرتِ حبشہ سے بھی سرفراز ہوئے اور ہجرتِ مدینہ سے بھی۔ قدیم الاسلام تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت اُنہیں میسر آئی۔ تمام غزوات میں شریک ہوئے، غزوہٴ بدر میں ابوجہل کاخاتمہ آپ ہی کے ہاتھوں ہوا۔ (صحیح بخاری:3963)
متعدد مناصب پرکام کیا۔ بالآخر عزلت نشینی اختیار کرلی تہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حصولِ علم کی درخواست پر بشارت دی تہی: ”إنك لغلام معلم“ (الاصابہ: 2/391)
”تم پڑہے لکھے بچے ہو۔“
روایت ِحدیث میں بے حد محتاط تھے اور دوسروں کو بھی احتیاط کا درس دیتے تہے۔ آدابِ روایت کا خصوصی خیال کرتے تھے۔ ان کے پاس بھی احادیث کا مکتوب مجموعہ تھا :
”عن معن قال أخرج لي عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود كتابا وحلف لي أنه بخط أبيه“ (جامع بیان العلم:1/72)
”مَعن سے مروی ہے کہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود نے مجھے ایک کتاب نکال کر دکہائی اور قسم کھا کر کہا کہ وہ ان کے والد کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔“
ایک آدمی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ کے چہرے کو دیکھتے ہی کہنے لگا،اُنہیں دیکھ کر خوش ہوتے اور فرماتے: (كيف ملىٴ علما كيف ملىٴ علما)