کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 80
ائمہ سلف کی طرح قاری صاحب ایک کامیاب تاجر بھی تھے۔ میرٹ روڈ پر ان کا امپورٹ ایکسپورٹ کا دفتر تھا۔ نمازِ ظہر تک تعلیمی و تدریسی ذمہ داریاں نبھا کر دفتر آکر کاروبار کرتے کچھ عرصہ سے تنظیمی تنازعات سے دل برداشتہ ہوکر گوشہ نشین ہوچکے تھے، تاہم ان کی تعلیمی سرگرمیاں بدستور جاری تھیں ۔
1970ء میں مرکزی جمعیت کے ناظم اعلیٰ میاں فضل حق کی سربراہی میں ایک وفد مولانا محمود احمد میرپوری (جو ابھی انگلینڈ نہیں گئے تھے) اور راقم پر مشتمل سندہ کے دورہ پر گیا۔ سکھر، میرپورخاص اور حیدر آباد سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے جہاں قاری صاحب اور حکیم محمد یعقوب اجملی کو ساتھ ملا کر شہر بھر کے علما سے رابطہ ہوا اور ایک ہفتہ قیام کرکے آخر میں نمائندہ اجلاس میں حکیم اجملی مرحوم کو امیر جمعیت بنایا گیا۔ جنہوں نے چند ہفتوں کے بعد قاری صاحب کی سرپرستی میں مرکزی جمعیت کو ایک فعال اور موٴثر تنظیم کردکھایا۔اس کام میں سیدعبدالرحیم غزنوی، حاجی محمد احمد لوہیا،حاجی طلحہ کریانہ والے اور حاجی اسماعیل مہ پارہ حفظہ اللہ جیسے تجار کی دامے درمے سخنے معاونت اُنہیں حاصل رہی۔ انہی کوششوں کے باعث ہی آج کراچی میں مساجد و مدارس کا جال بچھا ہوا ہے۔
حافظ محمد اسماعیل روپڑی 1962ء میں انتقال کرگئے تھے لیکن گذشتہ ایک لمبا عرصہ سے قاری صاحب کی شفقت ہمیں حاصل رہی۔ ان سے آخری ملاقات چوہدری ظفر اللہ مدیر جامعہ ابو بکر، کراچی کے جنازہ پر ہوئی تھی۔ مولانا حافظ مسعود عالم، حافظ محمد شریف، مولاناعتیق اللہ ستیانہ بنگلہ اور حاجی غلام محمد و غلام رسول ہمارے رفقا تھے۔ کئی ماہ سے قاری صاحب کی علالت کی خبریں آنے جانے والوں کے ذریعے معلوم ہوتی رہیں لیکن افسوس کہ قدرت کو مزید ملاقات منظور نہ تھی۔ حال ہی میں مولانا عبدالرشید حجازی تبلیغی پروگرام کے سلسلہ میں کراچی گئے تو اُنہوں نے واپسی پربتایا کہ قاری صاحب کی تیماری داری کی تھی، وہ اس بندہٴ عاجز کی خیر خیریت پوچھ رہے تھے اور دعائیں دیتے تھے۔ اب ہم ان کے لئے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرما کر اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اہل و عیال وپسماندگان و احباب و شاگردوں کو صبر و حوصلہ کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین!