کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 79
علامہ اظہر حسن زیدی مقررین تھے۔ ایک ایک گھنٹہ وقت تھا، راقم خود اس عظیم جلسہ گاہ میں موجود تھا۔ان تمام نامی گرامی مقررین میں سے قاری صاحب کی تقریر اوّل اور سرفہرست شمار ہوئی۔ ان کی تقریر کا امتیاز یہ تھا کہ قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتہ ساتہ منطق و فلسفہ اور سائنسی براہین ایسے اُچھوتے انداز سے بیان کرتے کہ خواص و عوام حیران اور عش عش کراُٹھتے۔ یوں تو قاری صاحب سے ملک کاتقریباً ہر حصہ متعارف تھا مگر ملتان، فیصل آباد اور لاہور میں اکثر ان کے خطاب اور تقریروں کے پروگرام رہتے۔مرکزی جمعیت اہلحدیث کی سالانہ کانفرنسوں ، فیصل آباد میں جمعیت شبان اہل حدیث اورجامعہ سلفیہ کے جلسوں میں اور باغ عام خاص ملتان میں کی گئی ان کی معرکہ آارا اور پرجوش تقریریں تاریخی حیثیت رکھتی ہیں ۔ بس یوں سمجھئے بقول مولانا ظفر علی خان
بلبل چھک رہا ہے ریاضِ رسول میں
فیصل آباد میں جب ان کا آنا ہوتا تو شہر کے علما کے ساتھ ہم ان کی کوئی نہ کوئی مجلس ضرور قائم کردیتے۔ مولانا عبدالرحیم اشرف رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا محمد صدیق، مولانا محمد اسحق چیمہ اور مولانا محمد شریف اشرف رحمتہ اللہ علیہم اجمعین جیسے علم و عمل کے پہاڑ اور فہم و فراست کے لوگ اب کہاں پیدا ہوں گے
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
اسی حلقہ علما میں قاری صاحب کی شرکت ہوتی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلامائزیشن کے جو اقدامات کئے گئے، ان دنوں اسلام آباد میں ہونے والے علما کنونشنوں میں مرکزی جمعیت کے وفود میں قاری صاحب کی شمولیت لازمی ہوتی۔ دو تین ایسے موقعوں پر راقم بھی ان وفود میں جاتا رہا، بھرحال یہ صحبتیں اور رفاقتیں بھلاے نہیں بھو ل سکتیں ۔
قاری صاحب روزِ اوّل سے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ساتھ وابستہ رہے، مولانا لکھوی کے دورِ امارت میں سینئر مرکزی نائب امیر تھے۔ جمعیت کی شوریٰ و عاملہ کے اجلاسوں میں ان کی آراء و تجاویز فیصلہ کن ہوتیں ۔ کراچی میں بڑے بڑے جماعتی مدارس میں وہ صدر مدرّس کے طور پر اعلیٰ کتب پڑھاتے رہے اور پھر تبلیغ و تنظیم جمعیت میں خاصا وقت لگاتے۔