کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 78
پارکوں ، باغوں اور بڑی بڑی مساجدمیں جلسوں کے پروگرام ہوتے۔ حضرت پیرسید بدیع الدین شاہ مرحوم بھی کبھی کبھار مدعو ہوتے۔کراچی کی مکدر فضاؤں میں توحید و سنت کی تبلیغ واشاعت اور شرک و بدعات کی تردید میں ان عظیم رہنماؤں کا بڑا کردار ہے۔ ایک دفعہ بریلوی مناظر مولانا محمد عمر اچھروی بھی کراچی آپہنچے اور مناظرے کے چیلنج شروع کردیے، بالآخر ایک عام جگہ پر طے شدہ وقت پر دونوں جانب سے سٹیج لگ گئے۔ قاری صاحب کی صدارت میں حافظ محمد اسماعیل صاحب نے ابتدائی دو تین مکالموں میں ہی اچھروی صاحب کی ایسے پکڑ کی کہ اُنہیں جان چھڑانا مشکل ہوگیا۔ جواباً اینٹوں ، پتھروں کی بارش کردی گئی لیکن سامعین کا بھاری اجتماع سمجھ گیا کہ حق و صداقت کا مسلک کیا ہے۔حافظ عبدالقادر ٹرین لیٹ ہوجانے کی وجہ سے دیر سے پہنچے، اچھروی صاحب بمع لاؤلشکر جب میدان چھوڑ گئے تو دونوں بھائیوں نے تادیر قرآن و سنت کی بارش سے دلوں کی آبیاری کی اور اس طرح کراچی میں احادیث کی دہاک بیٹہ گئی۔ ہمارے کراچی قیام کے دنوں ہی کا و اقعہ ہے کہ شہر میں نمازِ تراویح کی مسنون تعداد کا مسئلہ چل نکلا۔ دیوبندی عالم مولانا احتشام الحق تھانوی معتدل مزاج اور بڑے شریں نوا مقرر تھے، اُنہیں بھی اس بحث میں گھسیٹ لیا گیا، دونوں طرف سے اشتہارات چھپ گئے، حضرت قاری صاحب میدان میں ڈٹ گئے اور مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ قاری صاحب کی تقریروں اور حافظ محمد اسماعیل صاحب کے اخباری بیانات پر مولانا تھانوی خاموش ہوگئے۔ پھر کیا تھا جگہ جگہ قاری صاحب کی للکار سنائی دینے لگی نتیجتاً سنت کے شیدائیوں کی تقویت اور فروغ کے لئے فضاسازگار ہوتی چلی گئی بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ تمہیں سوگئے داستان کہتے کہتے یہ کوئی 1972ء کی بات ہوگی کہ ملتان کی ایک تنظیم نے قلعہ کہنہ، قاسم باغ میں بڑے پیمانے پر ’توحید کانفرنس‘ کے انعقاد کا اہتمام کیا جس میں اہلحدیث، دیوبندی، بریلوی اور شیعہ ہر ایک میں سے چوٹی کے مقرر کو دعوت دی گئی۔ اہل حدیث کی طرف سے قاری عبدالخالق رحمانی، دیوبندیوں میں سے مولاناغلام اللہ خان، بریلویوں میں صاحبزادہ فیض الحسن اور شیعہ میں سے