کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 77
مہینہ اورگرمیوں کی چھٹیاں تھیں ۔رمضان شریف بھی گزر رہا تھا کہ کراچی سے حافظ محمد اسماعیل صاحب نے بصد شفقت حکم دیا کہ کراچی آؤ اور ملک کا سب سے بڑا شہر دیکھو۔ چنانچہ میں اپنے دوست شیخ محمد یونس کے ہمراہ کراچی جاپہنچا۔ ہم دونوں دن کے وقت اِدھر اُدھر سیروتفریح کے لئے نکل جاتے، رات کو حافظ صاحب کی امامت میں قیوم منزل پہنچ کر نمازِ تراویح میں شرکت کرتے جہاں کراچی کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے نمازیوں کی ایک کثیر تعداد جمع ہوتی۔ تراویح کے بعد میزبان حاجی عبدالقیوم تمام شرکا کو ٹھنڈے مشروبات اور آئس کریم پیش کرتے۔ حضرت مولانا قاری عبدالخالق رحمانی جنہیں اب مرحوم لکھتے ہوئے قلم لرزتا ہے اور دل غمزدہ ہے، اپنی مسجد ِخضرا میں نمازِ تراویح پڑھا کر روزانہ قیوم منزل آجاتے۔ قاری صاحب بلندپایہ عالم دین، جامع معقولات و منقولات اور درس و تدریس کے قابل ترین اُستاذ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بارعب شکل و شباہت، لمباقد کاٹہ اور قوی جسم عطا فرمایا تھا، مرنجاں مرنج طبیعت اور خوش طبعی و خوش اخلاقی جیسی وافر خصوصیات ودیعت کی تھیں ، یوں سمجھئے بسطة في العلم والجسم کے مصداق شخصیت تھے۔ آپ کی تقریرمیں شعلہ نوائی اور خطابت میں ایک خاص قسم کی یکتائی پائی جاتی تھی، شستہ اور مادری زبان اُردو اور لحن داؤدی میں آیاتِ قرآنی کی تلاوت بڑی بہار پیدا کردیتی۔ حافظ محمد اسماعیل اس محفل کشت زعفران کے روحِ رواں ہوتے۔ حافظ صاحب علیہ الرحمہ علم و عمل کے پیکر اور اسلامی اخلاق و اقدار کامجسمہ تھے۔ میٹھی زبان میں سلجھی ہوئی گفتگو اور سنجیدہ لطائف و ظرائف خوب بیان کرتے چلے جاتے۔ افطاری کے موقعوں پر جب ان حضرات میں علامہ محمد یوسف کلکتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت الامام مولانا عبدالستار دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی شمولیت ہوجاتی تو رونق دوبالاہوجاتی۔ بعض اوقات علمی بحث و تمحیص چھڑ جاتی تو بچپنے کے سبب ہمارے پلے توکچھ نہ پڑتا مگر بڑے محظوظ ہوتے۔ قاری عبدالخالق صاحب اور حافظ محمد اسماعیل صاحب کو قرآنِ حکیم کا بہت ضبط تھا، دونوں دوست سارا دن قریباً اکٹھے گزارتے۔ پانچوں نمازوں کے بعد کبھی کسی مسجد میں اور کبھی کسی کالونی یا کوٹھی میں وعظ و تقاریرکا سلسلہ جاری رہتا، مگر ہم نے نہیں دیکھا کہ اُنہوں نے قرآنِ مجید کھولا ہو اور منزل پر نظر ڈالی ہو۔ رمضان المبارک ختم ہونے پر ڈیڑہ دو ماہ تک کراچی کے