کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 76
مولانا احمد دین گکھڑوی مرحوم مستقل طور پر ہمارے پاس قیام پذیر تھے، بس شب و روز اُن کا ساتہ والد علیہ الرحمہ سے تھا۔ مولانا علی محمد صمصام رحمۃ اللہ علیہ جب بھی تبلیغی سفر پر جاتے یا واپس آتے، یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ ہمیں ملے بغیر چلے جائیں ۔ ان نیک صفات اہل علم کو بھی والد علیہ الرحمہ کے زُہد و تقویٰ کے سبب ان سے قلبی لگاؤ تھا۔ حافظ محمد اسماعیل روپڑی اور حافظ عبدالقادر روپڑی سے تو ابا جان کوبہت ہی محبت وپیار تھا۔ جن دنوں یہ روپڑی برادران فیصل آباد کی جامع اہلحدیث امین پور بازار، مسجد ِمبارک منٹگمری بازار اور مسجد الفردوس گلبرگ سی میں خطباتِ جمعہ دیتے رہے، کئی کئی روز تک ان کی نشست و برخاست ہمارے گھر پر رہتی۔ حافظ عبدالقادر روپڑی چند سال مسجدالفردوس اور پھر مسجد مبارک منٹگمری بازار میں رمضان المبارک میں قرآن سناتے رہے، وہ اتنے باہمت تھے کہ نمازِ فجر کے بعد درسِ قرآن دے کر روزانہ لاہور جاتے اور وہاں ہفت روزہ ’تنظیم اہلحدیث‘ کی اشاعتی ذمہ داریاں اور دیگر کاموں کی دیکھ بھال کرکے نمازِ عصر کے بعد واپس فیصل آباد افطاری کے وقت پہنچ جاتے، اس کے بعد تراویح اور پھرمنزل کا خلاصہ گھنٹہ ڈیڑہ گھنٹہ۔ گرمیوں کے رمضان میں پورا مہینہ ان کا یہ عمل رہتا۔ بڑی عمر کے احباب جانتے ہیں کہ روپڑی برادران میدانِ مناظرہ اور میدانِ خطابت کے شہسوار تھے، حافظ محمد اسماعیل جیسا شیریں کلام خطیب اور ہردلعزیز و متواضع عالم اس بندہٴ عاجز نے نہیں دیکھا۔ دونوں بھائیوں کے سٹیج پر ہوتے ہوئے کسی اور عالم یا مقرر کی حیثیت ثانوی رہ جاتی، لوگوں کے اشتیاق اور توجہات کا مرکز یہی رہتے۔ تقسیم ہند کے بعد حافظ محمد اسماعیل روپڑی کچھ عرصہ قیوم منزل بالمقابل مزارِ قائد، کراچی رمضان المباک میں قرآن سناتے رہے۔ قیوم منزل والے حاجی عبدالقیوم پشاور سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ قیوم ٹیکسٹائل ملز کے مالک تھے اور عرصہ دراز سے کراچی میں رہائش پذیر تھے۔ بڑے ہی وضع دار و باوقار اور مہمان نواز بزرگ تھے، حافظ صاحب کے خصوصی خدمت گزاروں میں ان کاشمار ہوتا تھا۔ ملک بھر سے آنے والے سفیرانِ مدارسِ دینیہ سے ضرور تعاون کرتے۔ اب آتے ہیں حضرت مولانا قاری عبدالخالق رحمانی رحمۃ اللہ علیہ سے ہماری شناسائی کی طرف، یہ اس لڑکپن کے زمانے کی حسین یاد ہے جب راقم 1955ء میں دسویں جماعت کا طالبعلم تھا، جون کا