کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 63
4۔کیا مرتد کے لئے قتل اسلامی سزا نہیں ؟
غامدی صاحب کے موقف کا آخری نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے حدود و تعزیرات میں مرتد کے لئے سزا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ تمام فقہاے اسلام کی مشترکہ اور متفقہ غلطی ہے کہ اُنہوں نے اسے اسلامی حدود و تعزیرات میں شامل کررکھا ہے۔
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ غامدی صاحب کے استاد ’امام‘ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب مانتے ہیں کہ اسلامی تعزیرات میں مرتد کے لئے سزا مقرر ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :”تکفیر کا اصلی مفہوم تو یہ ہے کہ کسی شخص کو مرتد قرار دے کر اس کو وہ سزا دی جائے جو اسلام میں ارتداد کے لئے مقرر ہے۔“ (حقیقت ِدین، صفحہ 145)
اور سب جانتے ہیں کہ اسلام میں ارتداد کے لئے قتل ہی کی سزا مقرر ہے۔
اس کے علاوہ مولانا اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ”جو شخص مرتد ہوجاتاہے، وہ اسلامی ریاست میں جملہ شرعی حقوق سے محروم ہوجاتا ہے، ریاست پر اس کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی۔ چنانچہ اسی اُصول پر اسلامی تعزیرات کا وہ قانون مبنی ہے جو مرتدوں کی سزا سے متعلق ہے۔“ (تدبر قرآن: جلد اوّل/ ص513 زیر تفسیر البقرة، آیت 217)
اس سے معلوم ہوا کہ مولانا اصلاحی صاحب کے نزدیک اسلامی تعزیرات میں مرتدوں کی سزا کا قانون بھی موجود ہے۔ اور یہ بات کسی صاحب ِعلم سے پوشیدہ نہیں کہ وہ قانون یہی ہے کہ مرتد کے لئے قتل کی سزا ہے۔
ہم گذشتہ صفحات میں مرتد کی سزاے قتل کے بارے میں احادیث ِصحیحہ کے نصوص، تعامل صحابہ رضی اللہ عنہم ، ائمہ مجتہدین رحمۃ اللہ علیہ اور تمام فقہاے اسلام رحمۃ اللہ علیہ کے اجماع سے ثابت کیا ہی۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام کے حدود و تعزیرات میں مرتد کے لئے قتل کی سزا کا کوئی وجود نہیں ہے تو وہ اجماعِ اُمت کا منکر ہے اور ایسا منکر شخص یقینا گمراہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سلف سے خلف تک عرب و عجم کے تمام مجتہدین اور فقہاے اسلام عربیت سے ناآشنا، قرآن و حدیث کو سمجہنے سے عاری اور شریعت کے احکام سے ناواقف اور