کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 62
ذہن کے ساتھ سمجھ کر پڑھا ہو۔ قرآنِ مجید کی اس آیت کو جیسا کہ اس کے مضمون سے ظاہر ہے، مفسرین حضرات نے مشرکین کے خلاف جہاد و قتال سے متعلق قرار دیا ہے جبکہ مذکورہ حدیث مرتد کے بارے میں حکم بیان کرتی ہے۔ اب ارتداد کی سزا اور جہاد و قتال کے درمیان کیا باہمی ربط ہے؟ اس عقدے کی گرہ کشائی صرف غامدی صاحب کی عقل و منطق ہی کرسکتی ہے جو قرآن و حدیث کی عبارات میں اپنے خیالات پڑھنے کی عادی ہوچکی ہے۔علمی دیانت کا تقاضا تو یہ تھا کہ مرتد کے بارے میں آمدہ حدیث کو قرآن مجید کی ان آیات سے جوڑا جاتا جن میں ارتداد اور مرتدین کا ذکر آیا ہے مگر ایسا دانستہ طو رپر نہیں کیا گیا، کیونکہ ع خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں قرآنِ مجید میں ارتداد اور مرتدین کا ذکر درج ذیل مقامات پر موجود ہے اور جن کو مولانا اصلاحی صاحب نے بھی اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے : سورة البقرة کی آیت 217 اور سورة المائدة کی آیت 54۔ اپنی بات کی وضاحت کے لئے اس جگہ ہم ان میں سے صر ف ایک ہی حوالے پر اکتفا کرتے ہیں : ﴿وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَاُوْلٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ في الدُّنْيَا وَالاٰخِرَةِ وَاُوْلٰئِكَ أصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ﴾ (البقرة :217) ”اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت ہی میں مرے گا تو اس کے سارے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوجائیں گے۔ ایسے لوگ دوزخی ہوں گے اور ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔“ قرآن مجید کا یہ مقام اور دوسرے مذکورہ مقامات ایسے ہیں جن کو ارتداد اور مرتدین کے حوالے سے اُن احادیث سے جوڑا جاسکتا ہے جن میں مرتد کے بارے میں کوئی حکم آیا ہے اور غامدی صاحب کے استاد ’امام‘ مولانا اصلاحی صاحب نے بھی اپنی تفسیر تدبر قرآن میں ان قرآنی مقامات کی وضاحت میں ارتداد اور مرتدین کا ذکر کیا ہے مگراُنہوں نے سورة التوبہ کی آیت نمبر5 میں مرتدین کا کوئی تذکرہ نہیں کیا، جسے غامدی صاحب خواہ مخواہ مرتد سے متعلق حدیث کے ساتھ جوڑ رہے ہیں ۔