کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 61
وہ یہ کہ جس طرح اللہ کے رسولوں کے درمیان تفریق ناجائز ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی پر ایمان لائیں اور کسی کا انکار کردیں جس طرح قرآن کی آیتوں میں فرق کرنا حرام ہے، ہم کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کے کچھ حصے کو بحث و استدلال کے لئے اختیار کریں اور کچھ کو چھوڑ دیں ، اسی طرح یہ بات بھی بالکل ناجائز ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات میں کسی کو ہم اپنے عمل یا استدلال کے لئے اختیار کرلیں اور کچھ کو نظرانداز کردیں ۔ ان تمام صورتوں میں بعض کو چھوڑنا سب کو چھوڑنے کے ہم معنی ہے اور نہایت بیوقوف ہے وہ مسلمان جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں اس طرح کی تقسیم کرتا ہی لیکن افسوس ہے کہ اس طرح کا تفریق و تقسیم کا فتنہ آج عام ہے۔“ (حقیقت دین، صفحہ 334) 3۔ مذکورہ حدیث کا قرآن سے ربط کا معاملہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ فقہاے اسلام نے حدیث (( من بدل دينه فاقتلوه)) (جو مسلمان اپنا دین بدل لے، تو اُسے قتل کردو)کو قرآن کی اصل سے متعلق نہیں کیا اور قرآن وسنت کے باہمی ربط سے اس حدیث کا مدعا اور مطلب سمجھنے کی کوشش نہیں کی جس کے نتیجے میں اُنہوں نے مرتد کے لئے ایک ایسی سزا (قتل) قرار دے دی جس کا اسلامی حدود وتعزیرات میں کوئی وجود نہ تھا۔ اس کے بعد اُنہوں نے اس حدیث کا ربط قرآنِ مجید کی سورة التوبہ کی اس آیت 5 سے جوڑا ہے جسے ہم اُن کے ترجمے کے ساتھ یہاں درج کرتے ہیں : ﴿فَإِذَا انْسَلَخَ الاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوْا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَأَقَامُوْا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكوٰةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ إِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ (التوبھ:5) ”پھر جب حرام مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو جہاں پاؤقتل کردو اور اس کے لئے ان کو پکڑو اور ان کو گہیرو اور ہر گھات میں ان کے لئے تاک لگاؤ۔ لیکن اگر وہ کفر و شرک سے توبہ کرلیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰة ادا کرنے لگیں تو اُنہیں چھوڑ دو۔ بے شک اللہ مغفرت کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔“ آخر مرتد کے بارے میں مذکورہ حدیث اور اس قرآنی آیت میں کیا ربط و اشتراک ہوسکتا ہے؟ اسے ہر وہ شخص جان سکتا ہے جس نے زندگی میں کبھی ایک مرتبہ بھی قرآنِ مجید کو کھلے