کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 60
ہے، جو پیچھے بھی گزر چکی ہے: عن عبدالله قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله إلا بإحدٰى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني،والمفارق لدينه التارك للجماعة)) (صحیح بخاری:حدیث نمبر 2878) ”حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، ما سوا تین صورتوں کے:ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو، دوسری یہ کہ وہ شادی شدہ زانی ہو اور تیسری یہ کہ وہ اپنا دین چھوڑ کر (مسلمانوں کی) جماعت سے الگ ہوجائے۔“ اس سے معلوم ہواکہ ہر مسلمان کے مرتد ہوجانے پر اُس کے لئے قتل کی سزا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ مسلمان ہونے سے پہلے عرب کا مشرک تھا یا عجم کا کافر، دونوں صورتوں میں ایک ہی سزا ہے۔ 2 ۔کیا مرتد کی سزا کا مبنیٰ اور بنیاد صرف ایک ہی حدیث ہے؟ غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ فقہاے اسلام نے صرف صحیح بخاری کی ایک حدیث (( من بدل دينه فاقتلوه))کی بنیاد پر مرتد کے لئے قتل کی سزا بیان کردی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ علمی خیانت پر مبنی ہے اور وہ یہ بات عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے فرما رہے ہیں ۔ فقہائے اسلام کے اس اجماعی فیصلے کی بنیاد صرف ایک حدیث پر نہیں بلکہ متعدد احادیث ِصحیحہ پر ہے جن کو ہم اس مضمون کے شروع میں بیان کرچکے ہیں ۔ غامدی صاحب کا یہ ’طریق واردات‘ کہ کسی مسئلے پر بحث و استدلال کے لئے اس سے متعلق تمام احادیث کو پیش نظر رکھنے کی بجائے بعض حدیثوں کو لے لینا اور بعض کو چھوڑ دینا معروف دیانت دارانہ طریق بحث و استدلال نہیں ہے بلکہ یہ کام اُن کے استاد ’امام‘ مولانا امین احسن اصلاحی کے بقول کسی ’نہایت بیوقوف‘ شخص کا ہوسکتا ہے جو ’ایک فتنے‘ سے کم نہیں ۔ مولانا اصلاحی صاحب نے لکھا ہے کہ ”احادیث پر غور کرنے سے پہلے احادیث کے متعلق ایک اُصولی حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے