کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 59
3. مذکورہ حدیث کی اصل قرآن مجید کی ایک آیت سورة التوبہ :5ہے، جس کے بعد اس حدیث کا حکم خاص ہوجاتا ہے۔ 4. اسلام کے حدود و تعزیرات میں مرتد کے لئے قتل کی سزا کا کوئی وجود نہیں ۔ اب غامدی صاحب کے اس موقف کا ہم تجزیہ کرتے ہیں : 1 ۔کیا حدیث ِمذکورہ کا حکم عام نہیں ؟ غامدی صاحب مذکورہ حدیث کے حکم کو عام نہیں مانتے جب کہ عربیت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے عام مانا جائے۔ اس حدیث (( من بدل دينه فاقتلوه)) (جو مسلمان اپنا دین بدل لے تو اُسے قتل کردو) میں مَنْ موصولہ کا اُسلوب وہی ہے جو درج ذیل حدیث کا ہے : (( من غش فليس منا)) (جامع ترمذی: حدیث نمبر1315) ”جس نے دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں ۔“ اس حدیث میں بھی مَنْ(جو ، جو کوئی، جس نے) موصولہ آیا ہے۔ اور اس کا حکم عام ہے۔ اس سے ہر دھوکہ دینے والا شخص مراد ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے دھوکہ دینے والا کوئی خاص فرد مراد ہے۔ غامدی صاحب نے حدیث (( من بدّل دينه فاقتلوه)) میں مَنْ موصولہ کو اس کے عام معنوں میں لینے کی بجائے ’مشرکین عرب‘ کے خاص معنوں میں لیا ہے جو کہ عربیت کے بالکل خلاف ہے اور قرآن و حدیث کا جو مفہوم بھی عربیت کے خلاف لیا جائے، وہ غلط ہے کیونکہ یہ قرآن و حدیث کی معنوی تحریف ہے جو قرآن و حدیث کے انکار کے مترادف ہے اور اس حربے سے سارے دین کو دورِ نبوی تک محدود کرکے پوری شریعت ِاسلامیہ کا تیاپانچا کیا جاسکتا ہے اور یہ کارنامہ ہمارے زمانے کے منکرین حدیث، بالخصوص غامدی صاحب بڑی دیدہ دلیری سے سرانجام دے رہے ہیں ۔ ع چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد ٭ البتہ اس مقام پر عربیت کی رُو سے ایک سوال یہ اُٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا اس مَنْ (جو) میں کافر بھی شامل ہے تو اس سوال کے جواب کی وضاحت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری احادیث میں فرما دی ہے کہ اس سے مسلمان مراد ہے۔ مثال کے طور پر ایک متفق علیہ حدیث