کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 58
جس کا اطلاق ان کے نزدیک ان سب لوگوں پر ہوتا ہے جو زمانہٴ رسالت سے لے کر قیامت تک اس زمین پر کہیں بھی اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کریں گے۔ ان کی رائے کے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنی آزادانہ مرضی سے کفر اختیارکرے گا، اسے اس حدیث کی رُو سے لازماً قتل کردیا جائے گا۔ اس معاملے میں ان کے درمیان اگر کوئی اختلاف ہے تو بس یہ کہ قتل سے پہلے اسے توبہ کی مہلت دی جائے گی یا نہیں اور اگر دی جائے گی تو اس کی مدت کیا ہونی چاہئے؟ فقہاے احناف البتہ، عورت کو اس حکم سے مستثنیٰ قرا ر دیتے ہیں ۔ ان کے علاوہ باقی تمام فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ ہر مرتد کی سزا خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اسلامی شریعت میں قتل ہے۔“ (برہان: صفحہ 127، مطبوعہ ستمبر 2001ء ) وہ مزید فرماتے ہیں کہ ”لیکن فقہا کی یہ رائے کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو بے شک ثابت ہے مگر ہمارے نزدیک یہ کوئی حکم عام نہ تھا بلکہ صرف انہی لوگوں کے ساتھ خاص تھا جن میں آپ کی بعثت ہوئی اور جن کے لئے قرآن مجید میں اُمّیین یا مُشرکین کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ “ (برہان :صفحہ 127) وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”ہمارے فقہا کی غلطی یہ ہے کہ اُنہوں نے قرآن و سنت کے باہمی ربط سے اس حدیث کا مدعا سمجھنے کے بجائے اسے عام ٹھہرا کر ہر مرتد کی سزا موت قرار دی اور اس طرح اسلام کے حدود و تعزیرات میں ایک ایسی سزا کا اضافہ کردیاجس کا وجود ہی اسلامی شریعت میں ثابت نہیں ہے۔“ (برہان: صفحہ 130) ارتداد کی سزا کے بارے میں غامدی صاحب کے اس موقف کا جائزہ لیا جائے تو ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ 1. فقہاے اسلام نے صحیح بخاری کی حدیث ((من بدل دينه فاقتلوه)) (جو مسلمان اپنا دین بدل لے تو اُسے قتل کردو) کو غلطی سے ایک عام حکم سمجھا ہے جبکہ یہ ایک خاص حکم ہے۔ 2. فقہاے اسلام نے مذکورہ بالا ایک ہی حدیث کی بنا پر ہر قسم کے مرتد کے لئے قتل کی سزا بیان کردی ہے۔