کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 57
کی سختی پر اعتراض کرنیوالوں کو پہلے اپنے ہاں کے فوجی نظم و ضبط کی سختی پر غور کرنا چاہئے۔
اس مقام پر بعض لوگ (جن میں غامدی صاحب بھی شامل ہیں ) یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ جب کوئی مرتد مسلح ہوکر بغاوت کرے تو صرف اسی صورت میں وہ واجب القتل ہوتا ہے اور اگر وہ اسلامی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد اور بغاوت نہ کرے تو اُسے قتل کی سزا نہیں دی جاسکتی۔
اس اعتراض کا شرعی جواب تو یہ ہے کہ جن احادیث ِصحیحہ کی بنیاد پر مرتد کے واجب القتل ہونے پر اجماع ہے، اُن احادیث میں یہ بات مذکور نہیں ہے کہ مرتد جب تک مسلح بغاوت نہ کرے، وہ قتل کامستحق نہیں ہے بلکہ ان احادیث میں مرتد کے محض مرتد ہونے پراس کے لئے قتل کی سزا کا ذکر ہے۔
اور اس اعتراض کا عقلی جواب یہ ہے کہ جس طرح دنیا بھر میں کسی مفرور فوجی کو محض مفرور ہوجانے پر فوجی قانون کی رُو سے موت کی سزا کا مستوجب قرار دیا جاتا ہے اور اسے یہ سزا دینے کے لئے اُس کی طرف سے مسلح بغاوت ہونا کوئی شرط نہیں ، بالکل اسی طرح ایک اسلامی ریاست بھی اپنے شرعی قانون کے مطابق مرتد کو، اس کی طرف سے مسلح بغاوت کئے بغیر بھی موت کی سزا دے سکتی ہے۔
مرتد کی سزا کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف کا جائزہ
جناب غامدی صاحب مرتد کے لئے قتل کی شرعی سزا کو نہیں مانتے۔ اس بارے میں اُن کا موقف یہ ہے کہ مرتد کے لئے قتل کی سزا کا حکم تو ثابت ہے مگر یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اُن مشرکینِ عرب کے ساتھ خاص ہے جو اسلام قبول کرلینے کے بعد ارتداد اختیار کریں ، باقی اور کسی قسم کے مرتد کے لئے قتل کی شرعی سزا کا کوئی وجود نہیں ۔ غامدی صاحب اپنے اس موقف کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
”ارتداد کی سزا کا یہ مسئلہ محض ایک حدیث کا مدعا نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔ یہ حدیث بخاری میں اس طرح نقل ہوئی ہے: (( من بدل دينه فاقتلوه)) (جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، اسے قتل کردو) ہمارے فقہا اسے بالعموم ایک حکم قرار دیتے ہیں