کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 56
سے برگشتہ ہوجائیں کہ جب پڑھے لکھے معقول حضرات بھی اسلام کے قریب جاکر اس سے بدک جاتے ہیں تو ضرور اس دین میں کچھ خرابیاں ہیں ۔ اس کے علاوہ اس طریقے سے عام لوگوں میں اسلام اور اہل اسلام کے لئے کوئی کشش اور ترغیب باقی نہ رہے گی۔اگرچہ یہودیوں کی یہ سازش بوجوہ ناکام رہی، تاہم آج بھی ارتداد کی کسی سازش کے ذریعے کمزور ایمان والے مسلمانوں کے لئے کسی مقام پر بھی کوئی فتنہ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
5. آج کی مہذب ریاستوں کے فوجی قانون کی رُو سے کسی شخص کو فوجی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ مگر جب کوئی شخص اپنی مرضی سے فوجی ملازمت اختیار کرلیتا ہے تو اُسے ایک خاص مدت سے پہلے نوکری چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر وہ اپنی مرضی سے وقت سے پہلے نوکری چھوڑ دے تو اسے مجرم قرار دیا جاتا ہے ۔ اُس کا کورٹ مارشل کرکے اسے سزا دی جاتی ہے اور اگر وہ مفرور(Deserter)ہوجائے تو اسے سزاے موت کا مستحق قرار دیا جاتا ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے اور اس پر اعتراض کیوں نہیں کیا جاتا؟اس لئے کہ فوج بھیڑوں کا گلہ نہیں ہوتا، وہ ایک منظم ادارہ ہوتا ہے۔ وہ اجتماعی ذمہ داریوں کا ایسا نظام ہے جو نظم و ضبط (Discipline)کی سختی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔یہی وجہ ہے کہ سول (Civil) میں جن کاموں کو بالکل معمولی سمجھا جاتا ہے، وہی کام فوج میں جرائم قرار پاتے ہیں ۔ وقت پر حجامت نہ بنوانا، اپنے بوٹ پالش نہ کرنا، اُن کے تسمے نہ باندھنا، وقت پر کھانا نہ کھانا، اپنا بستر درست نہ رکھنا، سول میں کوئی جرائم نہیں مگر یہی کام فوج میں جرائم شمار ہوتے ہیں ۔ یہی معاملہ اسلامی ریاست کا ہے، وہ بھی کوئی بکریوں کا ریوڑ نہیں ہوتی کہ جس بکری کا جب جی چاہا ریوڑ سے الگ ہوگئی اور جب چاہا اس میں پھر شامل ہوگئی۔ اسلامی ریاست ایک خدائی فوج (حزب اللہ) ہے جس کے نظم و ضبط میں بھی سختی ہے، اس لئے وہ ارتداد کو جرم قرار دیتی اور مرتد کو سخت ترین سزا دیتی ہے تاکہ اس کا اندرونی نظم و ضبط قائم رہے۔ وہ ایک مرتد کو سزا دے کر اسی طرح اپنے لاکہوں کروڑوں مسلمانوں کے ایمان کا تحفظ کرتی ہے جس طرح کسی قاتل کو سزا دے کر پورے معاشرے کی زندگی کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اسلامی ریاست کے اس نظم وضبط