کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 55
کا مرتکب ہوکر دین اسلام سے الگ ہوتا ہے تو اپنے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کے جذبات لئے اہل کفر کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ اُس کے یہ منفی جذبات کفار کی طرف سے اسلام اور اسلامی ریاست کے خلاف کسی بڑے خطرے اور سازش کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں ، جس کے انسداد کے لئے اسلام نے مرتد کو موت کی سزا سنائی ہے۔
3. اسلام نے دنیا کے سامنے سوا چودہ سو برس پیشتر سے یہ اعلان کررکھا ہے کہ اس کے دائرے میں داخل ہونے یا نہ ہونے کی ہر شخص کو کھلی آزادی حاصل ہے۔ اس کے لئے کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔(البقرة :256) لیکن اس دائرے میں داخل ہونے کے بعد اس سے باہر نکلنے پر پابندی عائد ہے اور جو کوئی اس پابندی کو توڑے گا اُسے موت کے گھاٹ اُتارا جائیگا۔
اب اگر کوئی شخص اسلام کا یہ اعلان سن لینے کے بعد اپنی آزاد مرضی سے اس کے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔ پھر اپنی آزاد مرضی کے ساتھ اس سے باہر نکلنے پر عائد پابندی کو توڑتا ہے اور پھر اپنی اس حرکت پر اپنے کئے کی سزا پاتا ہے تو بتائیے اس میں اسلام کا کیا قصور ہے؟
4. ارتداد کو اسلام کے خلاف سازش کا ذریعہ بھی بنایا جاسکتا ہے اور مدینے کے یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف یہ ہتھیار فی الواقع استعمال کیا تھا، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ
﴿وَقَالَتْ طَآئِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِىْ اُنْزِلَ عَلي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْا اٰخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ﴾
”اہل کتاب کا ایک گروہ (اپنے لوگوں سے) کہتا ہے: تم جاکر صبح کو اس (دین) پر ایمان لے آؤ جو مسلمانوں پر اُترا ہے اور پھر شام کو انکار کردو تاکہ اس طرح اور (مسلمان) بھی (اپنے دین سے) پھر جائیں ۔“ (آلِ عمران:72)
اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ سازش کی تھی کہ اپنے ہاں کے کچھ پڑھے لکھے معتبر لوگوں کو مسلمانوں کی جماعت میں شامل کیا جائے، وہ بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں ۔ پھر جلد ہی اسلام کو چھوڑ کر اس سے بیزاری کا اظہار کریں ۔ اس کی ’خرابیاں ‘ دوسرے لوگوں تک پہنچائیں ، اس طرح مسلمانوں بالخصوص نو مسلموں کا ایمان متزلزل کیا جاسکے اور وہ اسلام