کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 54
کا کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جو انسانی زندگی کا محض ایک جزو یا ضمیمہ بن کر رہے اور جو ہر شخص کا ایک ذاتی اور نجی معاملہ (Private Matter)ہو۔ وہ کوئی لباس بھی نہیں جسے کوئی شخص آج پسند کرکے پہنے اور کل اُسے ناپسند کرکے اپنے جسم سے اُتار پھینکے۔ وہ دراصل ایک دین اور ایک نظامِ زندگی ہے۔ ایک مکمل ضابطہ حیات(Code of Life)ہے۔ وہ انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر محیط ایک منظم معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ عبادت، معاشرت، معیشت، سیاست اور اخلاق، غرض انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے، وہ ایک ایسی منظم و منضبط ریاست (Disciplined State) کی تشکیل کا خواہاں ہے جس کا ہر شہری اس کے جملہ احکام و قوانین کی پابندی کرے اور ان کی خلاف ورزی سے باز رَہے۔ اب اگر اسلامی ریاست کا کوئی شہری اس کے کسی قانون کو توڑتا ہے تو وہ اپنے شہری کو اپنے قانون کے مطابق سزا دینے میں حق بجانب ہے۔ جب کوئی مسلمان شہری مرتد ہوجائے گا تو اسلامی ریاست ایسے شخص کو ارتداد (Apastacy)کے جرم کا ارتکاب کرنے پر موت کی سزا دے گی۔ یہ اسلامی ریاست کا قانون ہے اور دنیا کی دوسری ریاستوں کی طرح اسے بھی اپنے قانون کے نفاذ کا اختیار ہے۔ 2. اسلام نے اپنے دائرے میں داخل نہ ہونے والوں اور اس میں داخل ہوکر نکل جانے والوں میں فرق کیا ہے۔ وھ پہلے گروہ کو ’کفار‘ اور دوسرے کو ’مرتدین‘ کہتا ہے۔ وہ پہلے گروہ کو برداشت کرتا اور کچھ حقوق بھی دیتا ہے، مگر دوسرے گروہ کو برداشت نہیں کرتا اور اُسے ہر حق سے محروم رکھتا ہے۔ پہلا گروہ بیگانوں کا ہے اور دوسرا بے وفا یگانوں کا۔ اُسے بیگانوں کی بے مروّتی پر کوئی شکوہ نہیں ، مگر اپنوں کی بے وفائی اُسے گوارا نہیں ۔ وہ بیگانوں سے محتاط رہتا ہے اور اُن کو اپنا راز دان نہیں بناتا۔ اس لئے بیگانے اُسے زیادہ نقصان بھی نہیں پہنچا سکتے۔ مگر اپنوں سے اُس کی رازداری ہے جن کے چھوڑ جانے سے اُس کا دل کڑہتا ہے اور اُن کی طرف سے اُسے بہت زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں وہ سازش کرکے اُسے کسی بڑے خطرے سے دوچار نہ کردیں ، کیونکہ ’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘ ہے۔ مرتد کا معاملہ اسی دوسری قسم سے متعلق ہے، وہ اسلام کا رازداں ہوتا ہے۔ جب وہ ارتداد