کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 53
”اس پر تمام فقہاے اسلام کا اتفاق ہے کہ آزاد مسلمان مرد مرتد ہوجائے تو اس کا خون بہانا جائز ہے۔ “
3. اسلامی فقہ کی مشہور کتاب الفقه الإسلامي وأدلته میں ڈاکٹر وہبہ زحیلی بھی أحكام المرتد کے تحت مرتد کی سزا قتل ہونے پر اجماعِ اُمت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اتفق العلماء على وجوب قتل المرتد لقوله صلی اللہ علیہ وسلم :«من بدّل دينه فاقتلوه» وقوله عليه السلام: «لايحل دم امرىٴ مسلم إلا بإحدٰى ثلاث: الثيب الزاني،والنفس بالنفس،والتارك لدينه المفارق للجماعة» وأجمع أهل العلم على وجوب قتل المرتد.
(جلد6/ صفحہ 186)
”علما کا اس پر اتفاق ہے کہ مرتد کا قتل واجب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو مسلمان اپنا دین بدل لے، اسے قتل کردو۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کسی مسلمان شخص کا خون حلال اور مباح نہیں ہوتا مگر تین صورتوں میں : ایک یہ کہ وہ شادی شدہ زانی ہو، دوسرے یہ کہ وہ کسی جان کا قاتل ہو اور تیسرے یہ کہ وہ دین کو چھوڑ دے، یعنی مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوجائے اور اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ مرتد واجب ِقتل ہے۔“
مذکورہ بالاشرعی دلائل کی تفصیل سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی شریعت میں مرتد کی سزا قتل ہے۔
مرتد کی سزا کے عقلی دلائل
اب تک ہم نے ایسے شرعی دلائل پیش کردیئے ہیں جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اسلامی شریعت میں مرتد کی سزا قتل ہے اور اس کی بنیاد احادیث ِصحیحہ، تعامل صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماعِ اُمت پر ہے۔ ان شرعی دلائل کو جان لینے کے بعد ایک صاحب ِ ایمان کا دل تو مطمئن ہوجاتا ہے کہ اسلام میں ارتداد کی یہی سزا ہے۔ مگر کیا کیجئے، آج کل بہت سے اہل ایمان کے دلوں کو کسی شرعی حکم کے بارے میں محض شرعی دلائل سے اطمینان حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کے علاوہ عقلی دلائل چاہتے ہیں تاکہ اُنہیں شرحِ صدر ہو۔ اس لئے ہم ذیل میں مرتد کی سزاے قتل کے بارے میں چند عقلی دلائل بھی پیش کرتے ہیں :
1. سب سے پہلے یہ حقیقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کی طرح