کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 52
کوئی ایک صورت ہو۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کرے۔ (مرتد ہوجائے) یا شادی کے بعد زنا کرے، یا کسی کو ناحق قتل کردے۔ اللہ کی قسم! میں نہ تو جاہلیت میں زنا کا مرتکب ہوا اور نہ اسلام لانے کے بعد۔ دوسرے یہ کہ میں نے اپنا دین بدلنا کبھی پسند نہیں کیا جب سے اللہ نے مجھے ہدایت عطا فرمائی ہے۔ تیسرے یہ کہ میں نے کسی کو ناحق قتل بھی نہیں کیا۔ پھر یہ لوگ کس بنا پر مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں ؟“
مذکورہ بالا صحیح احادیث سے یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام میں مرتد شخص مباح الدم اور واجب القتل ہوتا ہے۔ چنانچہ انہی احادیث ِصحیحہ کی بنا پر تمام فقہاے اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ اسلامی شریعت میں مرتد کی سزا قتل ہے۔
کتب ِاحادیث(جن میں صحیح بخاری بھی شامل ہے) اور معتبر کتب ِتاریخ سے ثابت ہے کہ چاروں خلفاے راشدین نے اپنے اپنے دور ِخلافت میں مرتدین کو ہمیشہ قتل کی سزا دی لیکن طوالت کے خوف سے ہم یہاں ان واقعات کی تفصیل نہیں دے رہے۔
اسی طرح خلفاے بنواُمیہ اور خلفاے بنو عباس نے بھی مرتد پر سزاے قتل نافذ کی۔
ائمہ مجتہدین کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے اور اس پراجماعِ اُمت ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہی ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل حوالے ملاحظہ ہوں :
1. ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی مسائل پر مبنی کتاب الفقہ على مذاہب الأربعة (از عبدالرحمن جزیری) میں ہے کہ
واتفق الأئمة الأربعة عليهم رحمة الله تعالىٰ على أن من ثبت ارتداده عن الإسلام والعياذ بالله وجب قتله، وأهدر دمه (جلد5/ص423)
”ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ کااس پر اتفاق ہے کہ جو شخص اسلام سے پھر جائے … اللہ بچائے… اُس کا قتل واجب ہے اور اُس کا خون بہانا جائز ہے۔“
2. اسلامی فقہ کے اجماعی مسائل پر مشتمل انسا ئیکلوپیڈیا موسوعة الإجماع میں ہے کہ مرتد کا خون بہانا جائز ہے :
اتفقوا على أن من كان رجلا مسلما حرًّا ... ثم ارتد إلى دين كفر...أنه حل دمه. (جلد اوّل /صفحہ 436)