کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 48
روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ اسی طرح اگر وہ عاشورا اور عرفہ کے دنوں میں رمضان کے روزوں کی نیت کر کے روزہ رکھ لے تو اسے رمضان کی قضا کے ساتھ عاشورا اور عرفہ کا اَجر بھی مل جائے گا۔واضح رہے کہ یہ ان نفلی روزوں کے متعلق ہے جو رمضان کے متصل بعد نہ ہوں ۔ اگر وہ نفلی روزے رمضان کے فوراً بعد ہوں ،جیسا کہ شوال کے چھ روزوں کا معاملہ ہے تو یہاں شوال کے چھ روزوں سے پہلے رمضان کے روزوں کی قضا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص شوال کے یہ چھ روزے رمضان کے روزں کی قضا دینے سے پہلے رکھ لے تو اسے ان روزوں کا ثواب نہیں ملے گا،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( من صام رمضان ثم أتبعه بست من شوال...))(صحیح مسلم: 984)”جو شخص رمضان کے روزے رکھے ،پھر ان کے ساتھ شوال کے چھ روزے رکھے توگویا اس نے پورے زمانے کے روزے رکھے۔“ معلوم ہوا کہ جس پر رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہو، اسے من صام رمضان میں شمار نہیں کیاجا سکتا جب تک کہ وہ پہلے کی قضا پوری نہ کرلے ۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ماہ شوال کے نکل جانے کا اندیشہ ہو تو وہ پہلے شوال کے چھ روزے رکھ سکتا ہے اور رمضان کی قضا بعد میں دے لے،لیکن ان کی یہ رائے درست نہیں ۔یہ چھ روزے اس وقت تک نہیں رکھے جا سکتے جب تک کہ پہلے رمضان کے روزے مکمل نہ کر لیے جائیں ۔ (فتاویٰ شیخ ابن عثیمین: ج 2) سوال :کیانو + دس یا دس + گیارہ محرم کا روزے رمضان کے روزں کی قضا کی نیت سے رکھے جا سکتے ہیں ؟ جواب: ہاں اگر رمضان کے روزے رہ گئے ہوں تو ان دنوں میں ان کی قضا دی جاسکتی ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( إنما الأعمال بالنيات))”اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ۔“ (اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء:سوال نمبر6774) سوال:امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ بعض لوگ عاشورا کے روز سرمہ لگانے،غسل کرنے، مہندی سجانے اور باہمی میل ملاقات کرنے، کھانا کھلانے اور خوشی کے اظہار کا اہتمام کرتے ہیں اور دوسری طرف ایک گروہ حزن وملال ،رنج وغم، رونے پیٹنے،گریبان چاک کرنے اور مجلس برپا کرنے کا اہتمام کرتا ہے، کیا اس کا کوئی ثبوت ہے؟