کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 47
”اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ بھی رکھوں گا۔“یعنی دسویں محرم کے ساتھ۔ (فتاویٰ شیخ ابن عثیمین: ج3/رقم فتویٰ 893)
سوال: جس شخص پر رمضان کے روزوں کی قضا دینا باقی ہو ،کیا وہ عرفہ،عاشورا یا دیگر مستحب روزے رکھ سکتا ہے یا اس کے لئے پہلے فرضی روزوں کی تکمیل ضروری ہے ؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ شرعاً اور عقلاً فرضی روزے نفلی روزوں سے پہلے رکھے جانے چاہئیں ،کیونکہ فرائض کی تکمیل دین کا لازمی تقاضا ہے اور نفلی روزے رکھنا اگر میسر ہوں تو فبہا ، وگرنہ کوئی حرج نہیں ، لہٰذا جس شخص پر ابھی رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہو ، ہم اسے یہی کہیں گے کہ نفلی روزوں سے پہلے رمضان کی قضا دو، لیکن اگر وہ رمضان کی قضا دینے سے پہلے نفلی روزے رکھ لے تو اس کا یہ نفلی روزہ صحیح تصور ہوگا،(اسے اس کا ثواب ملے گا) بشرطیکہ رمضان کے روزوں کی قضا دینے کے لیے آئندہ رمضان تک اس کے پاس زائد وقت ہو،جیسا کہ فرضی نماز کا معاملہ ہے کہ اگر وقت ہو تو انسان فرض نماز سے پہلے نفل نماز پڑہ سکتا ہے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص رمضان کے روزوں کی قضا دینے سے پہلے عاشورا یا عرفہ کا
_________________
٭ ( حوالہ سابقہ) بعض لوگوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ِمسلم ((لأصومن التاسع)) کی بنیاد پر صرف نویں محرم کے روزہ کومشروع قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ساتھ دسویں کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔(فتح الباری۴/۷۷۳) لیکن یہ موقف درست معلوم نہیں ہوتاکیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک دوسری روایت: ’’صوموا التاسع والعاشر وخالفوا الیہود‘‘ ’’نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔‘‘ موقوفاً صحیح ثابت ہے۔(دیکھئے :
الموسوعۃ الحدیثیۃ: ۴/۵۲،۵۳، ۵/۲۸۱، ’صحیح‘) علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی میں دسویں کے ساتھ نو محرم کے روزے کو ملانا ہی مستحب قرار دیا ہے۔ (الفتاویٰ الکبریٰ:۲/۲۰۱)