کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 46
دار الافتاء مرتب:محمد اسلم صدیق صومِ عاشوراء علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور بعض سعودی علما کے فتاویٰ سوال: اگر کوئی شخص صرف عاشورا کا روزہ رکھتا ہے اور ساتھ نویں محرم کا روزہ نہیں ملاتا تو اس کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے ؟ جواب : شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق فرماتے ہیں : ” عاشو را کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور صرف عاشورا کا روزہ رکھنا مکروہ نہیں ہے۔“٭ (الفتاوی الکبریٰ:4/461) تحفة المنہاج میں ابن حجر ہيثمى فرماتے ہیں : ”تنہا دس محرم کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔“ (ج3،باب صوم التطوع) (فتاویٰ:شیخ محمد صالح المنجد) الشیخ محمد بن صالح العُثيمين رحمۃ اللہ علیہ اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ”تنہا عاشورا کا روزہ رکھنے کی کراہت پر تمام اہل علم متفق نہیں ہیں ،بلکہ بعض علما کے نزدیک سرے سے ہی مکروہ٭ نہیں ہے،لہٰذا افضل یہ ہے کہ عاشورا سے پہلے نو یا عاشورا کے بعد گیارہ محرم کا روزہ ساتھ ملایا جائے٭البتہ نو محرم کا روزہ ساتھ ملاناگیارہ کی نسبت زیادہ افضل ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لئن بقيت إلى قابل لأصومنّ التاسع)) [1]
[1] صحیح مسلم:۱۹۱۷ ٭ بقول امام ابن تیمیہ:بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور علما: امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ،اور ان کے بعض اصحاب،امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تنہا عاشورا کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔(الفتاویٰ الکبریٰ:۲؍۳۰۱،۴؍۴۶۱) اور یہ امر ثابت شدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کا عزم ظاہر کیاتھا، لہٰذا سنت سمجھ کر صرف عاشورا کا روزہ رکھنا کراہت سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٭ دسویں کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ ملانے کے جواز میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صوموا یوم عاشوراء وخالفوا فیہ الیہود وصوموا قبلہ یوما أو بعدہ یوما))’’عاشورا کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو،اس طرح کہ عاشورا کے ساتھ ایک دن پہلے یاایک دن بعد روزہ رکھو۔‘‘ اور ایک یہ روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لئن بقیت لآمرن بصیام یوم قبلہ أو یوم بعد یوم عاشوراء)) لیکن یہ دونوں روایات ضعیف ہونے کی بنا پر قابل [گذشتہ] استدلال نہیں ہیں ۔اوّل الذکر روایت مسند احمد۱/۲۴۱ ،صحیح ابن خزیمہ: ۲۹۵،مسند بزار اورالطحاوی ۲/۷۸ میں ہے ۔اس میں ایک راوی ابن ابی لیلیٰ (محمد بن عبد الرحمن) سيء الحفظ ہے اور دوسرا راوی داود بن علی کے متعلق ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: یخطیٔ اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس کی حدیث قابل حجت نہیں ہے۔ اور ثانی الذکر روایت مسند حمیدی:۴۸۵ اور امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ کے طریق سے السنن الکبریٰ۴/۲۸۷ میں بھی مذکورہ بالا دونوں راوی موجود ہیں جو کہ ضعیف ہیں اور اِنہی الفاظ کے ساتھ یہ روایت الکامل لابن عدی۳/۹۵۶ میں ہے اور اس میں بھی داود بن علی راوی موجود ہے جو کہ ضعیف ہے۔ اسی بنیاد پر شعیب ارناؤوط، مسند احمد کے دیگر محققین اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھئے: الموسوعۃ الحدیثیۃ:۴/۵۲،ضعیف الجامع ازشیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ :۸۴۶۴۹، ۳۵۰۶، لہٰذا ثابت ہوا کہ عاشورا کے ساتھ سنت سمجھتے ہوئے گیارہ محرم کا روزہ ملانا بہتر نہیں بلکہ ۹ محرم کا روزہ ساتھ ملانا چاہیے۔