کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 44
تیسرا آپشن : سلفیت پر پابندی
کچھ عرصہ پہلے بعض اسلامی ممالک میں سلفی دعوت کے لئے مکمل آزادی میسر تھی۔ اس سلسلے میں جزیرۂ عرب اور خلیجی ممالک کی مثال دی جاسکتی ہے۔ وہاں پر سلفی منہج کے حامل کو آزادی تھی کہ وہ ہر طرح کی دعوتی سرگرمیوں میں کام کریں ۔ لیکن اب ان ممالک میں بھی حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور مغرب کے شدید دباؤکی وجہ سے وہاں بھی سلفیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ سلفی دعاة کی حرکات و سکنات کو مکمل نظر میں رکھا جارہا ہے۔ ان ممالک میں اس غیر معمولی تبدیلی کی اصل وجہ مغربی ذرائع ابلاغ کی وہ مذموم کوشش ہے جس میں وہ ہر سلفی دعوت کو جو کہ بے شک محض علمی اور دعوتی ہو، اس کو لازمی طور پر جہاد اور جہادی تحریکوں کے ساتھ مربوط کررہے ہیں ۔یہ مغربی ذرائع ابلاغ کی ایک خاص مہم ہے جس کے ذریعہ وہ مختلف سلفی تحریکوں اور اداروں کو ایک ہی تحریک میں ضم کرکے پیش کرناچاہتے ہیں اور یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اس تحریک کا مقصد دنیاکے کونے کونے میں عسکری عمل کو پھیلانا ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ علیٰ وجہ البصیرة جہاد فی سبیل اللہ تاریخ کے ہر دور میں سلفی تحریکوں کا ہی طرۂ امتیاز رہا ہے اور سلفی لوگ کل بھی اور آج بھی جہادی تحریکوں میں اگلی صفو ں میں برسرپیکار نظر آتے ہیں ۔ لیکن واضح رہے عسکریت پسندی قطعاً سلفی منہج نہیں ہے ،بلکہ سلفی منہج میں عسکری عمل کے لئے خاص زمان ومکان اور دوسرے اعتبارات کو بھی مدنظر رکھا جاتاہے اور ان حالات میں فیصلہ کرنے کے لئے قرآن و سنت اور اسلاف کے اُسوہ سے راہنمائی لی جاتی ہے۔لیکن آج مغربی ذرائع ابلاغ میں عسکریت پسندی کو سلفیوں سے منسوب کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ امریکی کانگرس کا ایک رکن اس بارے میں کہتا ہے:
”وہابی عقیدہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو غیر وہابی ہے، اس کا انجام قتل ہے۔“
واشنگٹن پوسٹ کی ایک خاتون صحافی لکھتی ہے:
”جو لوگ وہابی عقیدہ کو اختیار نہیں کرتے،وہابیوں کی نظر میں وہ سب کافر ہیں ۔“ (دیکھئے ویب سائٹ ’اسلام ڈیلی‘)
اوپر ذکر کردہ ساری بحث سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ سلفیت کے مقابلہ کے لئے متعدد