کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 43
طور پر سامنے آئے ہیں ، سلفیت کے خالص منہج کے اندر جگہ نہ لے سکیں ۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ افراد، بالخصوص سلفی دعوت کو قبول کرنے والوں کی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ ان کو شخصیات کی بجائے منہج سلف سے جوڑا جائے اور صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم سے ورثہ میں ملنے والے اس منہج حق کے مسلمہ اُصول ان کے ذہنوں میں بٹھائے جائیں ۔ شخصیات کی مدح و ستائش اور تقدیس کے طریقہ کو مکمل طور پر ردّ کیا جائے، کیونکہ اب وقت کچھ ایسا ہے کہ اس میں حق پراستقامت ایک نایاب چیز بن کر رہ گئی ہے۔ إلاماشاء الله
اَسلاف کا منہج دل میں راسخ ہونا چاہئے کہ کسی دو رمیں اگر کوئی بڑی سے بڑی شخصیت حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اپنا رویہ و منہج تبدیل کربیٹھے تو سلفیت کے حامل دوسرے افراد پر اس کا کوئی اثر نہ پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر ہمیں بار بار غور کرنا چاہئے :
(( تركت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما: كتاب الله وسنتي، ولن يتفرقا حتى يردا عليّ الحوض)) (صحیح الجامع الصغیر:حدیث2937)
”میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کرجارہا ہوں ، ان کی موجودگی میں (ان پر عمل کرکے) تم کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’قرآن‘ اور میری سنت ہے۔ یہ دونوں ہرگز آپس میں علیحدہ نہیں ہوسکتے حتیٰ کہ یہ قیامت کے روز حوضِ کوثر پر میرے ساتھ آملیں ۔“
اگر ہم معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں کتاب و سنت سے تعلق کے دو طریقے نظر آتے ہیں : ایک تو یہ کہ کتاب و سنت کو ہر وقت کاندہوں پراُٹھاے رکھنا لیکن ان کے اندر غور نہ کرنا حتیٰ کہ ان کے وزن سے کاندھے تھک جائیں اور کتاب و سنت ایک ناقابل برداشت بوجہ بن جائے جبکہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کو کاندھے پر اُٹھانے کی بجائے نظر کے سامنے رکھا جائے اور وہ جس طرف کو چلیں اور جس راستے کی طرف رہنمائی کریں ، ان کے پیچھے چلا جائے اور ان کے نقش قدم کو اختیا رکیا جائے۔ ایسا شخص جو پہلے تو کوئی قدم اٹھاتا ہے یا کوئی فیصلہ کرتا ہے اور پھر کتاب وسنت سے اپنے اس فیصلہ کی تائید میں نصوص تلاش کرتا ہے، اس شخص میں اوردوسرے اس شخص میں زمین و آسمان کا فرق ہے جو پہلے کتاب و سنت میں غور کرتا ہے تاکہ ان کی ہدایت کی روشنی میں قدم اُٹھائے اور فیصلہ کرے۔