کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 42
لیکن دوسری طرف دشمنانِ سلفیت کے لئے ان بعض سلفی دعاة کے مزاج میں جگہ لیتی ہوئی نرمی بلکہ تساہل سونے سے زیادہ قیمتی ہے جس کو ضائع کئے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ وہ فوراً اس طرح کے ہلکے سے شگاف میں ہاتھ ڈالتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ آپس میں ملنے نہ پائے اور ان سلفی دعاة کو تساہل کی راہ کو مزید آگے بڑھانے پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جدیددور کے تقاضوں کو ان کے سامنے پیش کرکے دعوتی رویہ میں مزید تبدیلی پر آمادہ کرتے ہیں اور اس کے پس پردہ ان کا ہدف یہ ہے کہ سلفی دعوت کی ترجیحات کو تبدیل کردیا جائے۔ ان کے پیش نظر یہی رہ جاتا ہے کہ سلفی دعوت کی ترجیح صرف یہ بن جائے کہ لوگوں کے اندر اسلامی شعائر کی اجمالی پابندی کا احساس پیدا کیا جائے اور اسلام کی عمومی تعلیمات سے عوام کی دوری کو کم کیا جائے جبکہ سلفی دعوت کی حقیقی ترجیحات اس سے مختلف ہیں اور وہ یہ ہیں کہ معاشرے کے اندر دین کے حوالے سے نہایت حساس قسم کے انحرافات اور خرابیوں کو بھی روکا جائے اور عقیدہ، شرک وبدعات، ولاء و براء (اہل کفرسے دوستی اور دشمنی کا معیار) ایسے دوسرے نازک موضوعات کو بھی تفصیل سے لیا جائے اور لوگوں کے سامنے ان معاملات میں حق اور باطل کو صاف طور پر علیحدہ کرکے دکھایا جائے اور پھر حق کی بھر پور اشاعت کی جائے اور باطل کی کھلی اور بغیر کسی مداہنت کے تردید کی جائے۔ یہاں پر ایک اہم مسئلہ درپیش ہے کہ سلفیت کی طرف منسوب دعاة گذشتہ سطور میں ذکر کئے گئے اسباب کی وجہ سے اپنی فکر میں جب تبدیلی لاتے ہیں تو اگر وہ اپنے اس اقدام کو پست قدمی یا دستبرداری سے تعبیر کریں تو ان (اعداے سلفیت) کے لئے اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ چنانچہ اہم تر ہدف یہ ہے کہ سلفیت کی امتیازی خصوصیات کو اس کے حاملین کے ہاتھوں ہی تبدیل کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں سلفیت کو اندر ہی سے رخنہ اندازی کا شکار کیاجائے۔ ان حالات میں اس امر کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ حالات کے تغیروتبدل کے نتیجہ میں سلفی دعوت کی صاف و شفاف پیشانی پر پڑ جانے والے غبار سے پاک کرنے کا عمل مسلسل جاری رہنا چاہئے تاکہ سلفیت کے نام سے وہ افکار و خیالات جو ترغیبی یا ترہیبی دباؤ کے نتیجہ کے