کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 41
میں اس جماعت میں اس وقت دراڑیں پڑیں جب اس کے بہت سے افراد تکفیر کی روش اختیار کر گئے حتیٰ کہ إخوان المسلمون سے علیحدہ ہوکر انہوں نے جماعة التكفيروالہجرة کے نام سے نئی جماعت قائم کرلی۔ اب کچھ عرصہ سے مصر میں إخوان المسلمون پھر سے اختلافات کا شکار ہے کیونکہ اس جماعت کے بہت سے افراد مصر کی حکومت اور مصر میں موجود لادینی(سیکولر) قوتوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں بلکہ اسی بنیاد پر حزب الوسط کے نام سے نئی پارٹی کی بنیاد رکھنے کی تیاریاں بھی ہورہی ہیں ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جو ہمیں کئی ایک سبق سکھاتی ہے جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم سلفی دعوت کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سلفیوں اور پھر سلفی دعوت کو کنٹرول کرنے کے لئے اور سرکاری سرپرستی میں لانے کے لئے کیا کیا وسائل اختیار کئے جارہے ہیں ؟ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سلفیت پر ایک عجیب و غریب طرز کی حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے، جس کا انداز کچھ یوں ہے کہ سلفیت کی طرف منسوب بعض دعاة کو اس قدر مشہور کردیا جائے اور ہر طرح کے ذرائع ابلاغ تک ان کی رسائی کردی جائے جہاں ان کے مخاطب ہر طبقہ کے لوگ ہوں ۔ اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ یہ سلفی دعاة جو اپنے سامنے تمام راستے کھلے ہوئے پائیں گے اور دیکھیں گے کہ ان کے مخاطبین ایسے معاشرے کے افراد ہیں جس میں تمام مفاہیم اور اَوزان ومقیاسات بدل چکے ہیں ۔ پھر وہ اپنے آپ کو ایسے معرکے کے میدان میں پائیں گے جس میں مقابلہ کے لئے ان کے پاس درکار اسلحہ مناسب اور کافی نہ ہوگا، اس وقت ان دعاة کو احساس ہوگا کہ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ اپنے کچھ بنیادی اُصولوں میں نرمی پیدا کی جائے اور ضروری ہے کہ مختلف طبقات اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے اپنے مخاطبوں کے احساسات کا خیال رکھا جائے اور ان کے ہاں مقدس تصورات کو مجروح نہ کیا جائے اور ساتھ ھی ساتھ ان غیور سلفی افراد کو مطمئن کرنے کی کوشش بھی کی جائے جو ان دعاة کے اس طرح کے نرم رویہ سے نالاں ہوں اور اُنہیں یہ باور کروایا جائے کہ ہمارے اس رویہ کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے اُصولوں سے انحراف کررہے ہیں بلکہ اپنی دعوت کو مزید پھیلانے کے لئے یہ جدید دور کے تقاضے ہیں بس صرف بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے سامنے کچھ اہتمام و مدارات سے کام لیا جائے۔