کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 40
دوسرا آپشن: سلفیت کی سرپرستی یا سرکاری کنٹرول مغربی ایجنڈے میں موجود اس آپشن پر گفتگو کرنے سے پہلے ایک نہایت باریک اور غور طلب نکتہ کوملحوظ رکھنا ضروری ہے اوروہ یہ کہ سلفیت بحیثیت ِمنہج و فکر اور سلفیوں میں بہت فرق ہے۔ اس حقیقت کومدنظر رکھتے ہوئے جب ہم سلفیت کی سرپرستی یا سرکاری کنٹرول کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہیں تو موضوع کے دو پہلوہمارے سامنے رہنے چاہئیں : ایک سلفیت اور دوسرے سلفی لوگ، لیکن یاد رہے کہ سلفیت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے سلفیوں پر کنٹرول یقینا لازمی ہے یا کم از کم ان میں سے موٴثر افراد کو کنٹرول میں لانا ضروری ہے۔ اس آپشن پر کچھ اسلامی ممالک میں عمل ہورہا ہے اور پوری کوشش کی جارہی ہے کہ سلفی دعاة کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اور پھر ان کے ذریعہ ان کے ماتحت سلفیوں پر کنٹرول حاصل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ بات تعجب خیز نہیں کہ اکثر ممالک میں سلفی تحریکوں کے دو گروہ ہیں یعنی ایک گروہ جو مقامی حکومت کا حامی ہے اور دوسرا مخالف۔ اس موضوع کے حوالہ سے جن دوسرے اُمور کی طرف اشارہ ضروری ہے، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اگر ہم اسلامی تحریکوں کی تاریخ پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثر جماعتیں دو نہایت نازک موڑوں سے گزرتی ہیں ۔ پہلے موڑ پر اکثر جماعتوں میں تاسیس کے کچھ عرصہ بعد ہی شگاف پیدا ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں کچھ افراد جماعتی اُصولوں اور نظریات پر زیادہ سختی سے کاربند رہتے ہیں ، ایسا رویہ بعض اوقات لوگوں کو تکفیر کی طرف بھی لے جاتا ہے لیکن یہی افراد کچھ دہائیاں گزرنے کے بعد اور اپنے غلو سے بھرے نظریات کے سبب وقت کے نظاموں (حکومتوں ) کے ہاتھوں سختیوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونے کے بعد جماعت میں دوبارہ شگاف پیدا کرتے ہوئے دوسرا موڑ لیتے ہیں اور اپنے نظریات سے رجوع کرتے ہیں اور سختی کی بجائے نرمی اور تفاہم پسندی کی راہ اختیارکرتے ہیں ، واپسی کے اس سفر میں حتیٰ کہ وہ اپنے بعض ایسے نظریات سے بھی قطع تعلقی کرجاتے ہیں اور براء ت کااظہار کرتے ہیں جو پہلے ان کے ہاں بنیادی اُصولوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ ماضی قریب میں اس کی مثال مصر کی جماعت إخوان المسلمون ہے۔ ساٹھ کی دہائی