کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 37
ان کی طباعت کروائی جارہی اور مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کے ان کوشائع کیا جارہا ہے۔
یوں امریکی پالیسی ساز ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ تصوف اور اس کے پیروکار ایک بہترین اسلحہ ہے جس کے ذریعہ پوری دنیا میں ’شدت پسند‘ مسلمانوں کامقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
امریکی ماہرین عالم اسلام میں صوفی ازم اور دوسری اسلامی تحریکوں کے درمیان موجود اختلافات کو اہمیت کی نظرسے دیکھتے ہیں اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکہ نے حکومتی سطح پر براہ راست انداز میں صوفی ازم کی مکمل حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک امریکی میگزین کی رپورٹ کے مطابق شمالی افریقہ کے عرب ممالک کی حکومتوں نے ان ممالک میں موجود صوفی قائدین کی ایک کانفرنس منعقد کی،اور ان کے سامنے امریکی ایجنڈا رکھتے ہوئے ان کو کئی ملین ڈالر کی امداد دے کر ’شدت پسند‘ مسلمانوں کے خلاف میدان میں برسرپیکار ہوجانے کا مشن سونپا ہے۔
امریکی کانگرس میں موجود دینی آزادی کے متعلقہ کمیٹی بھی اپنی ایک رپورٹ میں عالم اسلام میں صوفی ازم کی مکمل حوصلہ افزائی اور حمایت کرنے کی سفارش کرچکی ہے۔
عراق کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی غیر مسلم بیوی’شریل بینارڈ‘ نے کچھ عرصہ پہلے ’عالم اسلام ؛ 11 ستمبر کے بعد‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں اس نے عالم اسلام میں برپا ان تحریکوں اور افکار کے بارے میں لکھا ہے جو عالم اسلام میں تبدیلی لانے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ تصوف کے حوالے سے وہ لکھتی ہے کہ
”اس وقت عالم اسلام کی غالب اکثریت علاقائی اور خود ساختہ عقائد و افکار کی پیروکار ہے اور یہ افکار عام طور پر ’شدت پسندی‘ سے دور ہیں ۔ یہ لوگ قبروں کی تقدیس کرتے ہیں اور وہاں جاکر اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں ۔ ان عقائد کی کثرت نے مسلمانوں کے اندر وہ شدت پسندی ختم کردی ہے جس کی نمائندگی وہابی فکر کررہی ہے۔ اکثر لوگ جانے یا انجانے صوفی ازم پر چل رہے ہیں ، یہ لوگ اپنے ممالک کی سیکولر حکومتوں کو اپنے عقائد و افکار کے لئے بالکل خطرہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کے عقائد ان کو اپنی حکومتوں کے خلاف اٹھنے پر اُکساتے ہیں ۔“
آگے چل کروہ لکھتی ہے :
”وہابی سلفی عالم اسلام میں صوفیوں اور جامدروایت پسندوں کے سخت دشمن ہیں ۔ اس مخالفت