کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 36
دیتا ہے۔ اس کے لائحہ عمل کے لئے وہ کہتا ہے کہ
” طلبہ کو تعلیمی اداروں میں باقاعدہ تصوف کی تعلیم دی جائے، ضروری ہے کہ طلبہ ’امن پسندی‘ کا درس سیکھیں اور عالمی معاشرت کے اندر گھل مل کر رہنا سیکھیں ، جبکہ وہابیت نوجوانوں اور عام لوگوں کو یہ سکھلاتی ہے کہ وہ غیر مسلم معاشرے کا حصہ نہ بنیں ۔ جبکہ ضروری ہے کہ ہر انسان جس معاشرے میں رہ رہا ہے، اس کے اندر رَچ بس جائے اور اس کے نظام … چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی… کا حصہ بن جائے اور اس کی تعمیر میں مخلصانہ کردار ادا کرے۔ جہاں تک دین کا تعلق ہے تو اس کی حدود محض فرد کی انفرادی زندگی تک ہیں اور وہ فرد کے اور ربّ کے درمیان انفرادی تعلق کا نام ہے۔ میرے خیال میں اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں ۔“ (اخبار ’سنڈے سٹریٹ ٹائم‘ اور ویب سائٹ’اسلام ڈیلی‘)
ہشام قبانی اسلامی ممالک کے دورہ جات کے ضمن میں ازبکستان کا تین مرتبہ دورہ کرچکا ہے۔ اپنے دوروں میں وہ ازبکستان کے ظالم حکمران اسلام کریموف کی بڑھ چڑھ کر تعریف وتوصیف کرتا رہتا ہے جبکہ اس حکمران کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے برسراقتدار آتے ہی ہزاروں مسلمانوں سے اپنے ملک کی جیلوں کو بھر دیا، تمام دینی مدارس پر پابندی لگا دی اور اُنہیں بند کردیا، حجابِ اسلامی کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کردیا، مساجد بھی اس کے ظلم سے محفوظ نہ رہیں اور ان میں سے متعدد مساجد کو مقفل کردیا گیا۔
قبانی کے ازبکستان کے آخری دورے میں 120/افراد پر مشتمل ایک وفد اس کے ہمراہ تھا۔ اس وفد نے پورے ملک کا جگہ جگہ دورہ کیا اور قبانی کی قیادت میں ہر جگہ اسلام کو انتہائی مسخ کرکے پیش کیا، یہ لوگ صوفیانہ خرافات کے بیج لوگوں کے ذہنوں میں بکھیرتے رہے۔
ایسی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ امر تعجب خیز نہ ہوگا کہ امریکی میگزین ’یو ایس نیوز‘ یہ خبر شائع کرتا ہے کہ”واشنگٹن اسلامی تحریکوں کامقابلہ کرنے کے لئے صوفی ازم کو بطورِ اسلحہ استعمال کررہا ہے اور اس کی تبلیغ اور تشہیر کے لئے کوشاں ہے۔“ اس کی خاطر تمام وسائل بروئے کار لارہا ہے، عالم اسلام میں جگہ جگہ مزارات کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، تصوف کے متعلق پرانی کتابیں جو ابھی تک طبع نہیں ہوئیں اور مخطوطات کی صورت میں ہیں ،