کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 34
کررہے ہیں ، اور اُنہیں ترک وزیراعظم طیب اردگان کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔ یاد رہے کہ اردگان صوفی سلسلہ نقشبندیہ سے منسلک ہیں ۔ امریکی ذمہ دار ان اس بات پر غور کررہے ہیں کہ ترکی کے صوفی، امریکی حمایت کے سائے میں صوفی ازم کو پوری دنیا کے مسلمانوں میں پھیلانے کا کام انجام دیں ۔ اس کے لئے امریکہ کی طرف سے ان کومکمل سیاسی اور اقتصادی تعاون دیا جائے گا۔ اسی سلسلے میں ترک صوفیوں کو ’زیورِ علم‘سے مزید آراستہ کرنے کے لئے امریکی یونیورسٹیز میں سکالرشپ دیے جائیں گے۔ (دیکھئےSufiyah.com)
اب ہم صوفی ازم کی دو اہم عالمی شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں :
٭ ان میں پہلی شخصیت علی جعفری اور دوسری ہشام قبانی ہے۔ یمنی نژاد عرب علی جعفری صوفیت کا سرگرم داعی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے اس نے کافی شہرت حاصل کی ہے۔ اس کی شہرت کا آغاز یوں ہوا کہ مصر میں اس نے مالدار اور تاجر طبقہ میں صوفیانہ انداز سے وعظ اور سماع کی مجالس منعقد کرنا شروع کیں ،جن مجالس کی وجہ سے اس طبقہ کے افراد میں اس کانام واعظ کی حیثیت سے مشہور ہوگیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں اس کا معتبر مقام بن گیا اور یہ عموماً صوفیوں کا طریقہ کار ہے کہ وہ عوام کو قرآنی اور نبوی تعلیمات کے قریب کرنے کی بجائے شخصیات کے گرد جمع کرتے ہیں ۔
اس کے بعد بہت سے ٹی وی چینلز پر بھی دینی پروگرامز میں علی جعفری ظاہر ہونا شروع ہوا۔ 11 ستمبر کے واقعہ کے بعد تو اس کی شہرت کو چارچاند لگ گئے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں یہ ایک عالمی واعظ کی حیثیت سے معروف ہوگیا اور پھر یہ حال تھا کہ ’قبلہ حضرت‘ جہاں بھی جاتے، ان کے رستہ میں پھول نچھاور کئے جانے لگے۔ نہایت کم عرصہ میں اس نے امریکہ کے کئی دورے کئے۔ ’قبلہ حضرت‘ علی جعفری امریکہ کی متعدد ریاستوں میں جاجاکر سیمینارز اور صو فیانہ مجالس منعقد کررہے تھے جبکہ دوسری طرف صحیح اسلامی منہج و فکر کے حامل رہنماؤں کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی لگائی جارہی تھی، جس طرح کہ معروف برطانوی نژاد نو مسلم داعی یوسف اسلام کے ساتھ بارہا ایسا ہوا کہ ان کو امریکہ میں داخل ہونے سے روکا گیا اور خاص طور پر 11 ستمبر کے بعد تو ان پر مزید سخت پابندیاں عائد کردی گئیں ۔ اس کا سبب صرف یہ تھا کہ یوسف اسلام اور