کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 32
وائٹ ہاؤس میں بہت اہمیت حاصل ہے، اس نے ایک امریکی اخبار میں ”ہم اعتدال پسند مسلمانوں کو کیسے پہچانیں ؟“ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا ہے :
”بہت سے نام نہاد اعتدال پسند ایسے بھی ہیں جو حقیقت میں بنیاد پرست ہیں ، لیکن ان کی حقیقت تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ باوجودیکہ میرے جیسے باریک بین افراد اس معاملہ میں انتہائی محنت اور بہت وقت صرف کررہے ہیں ۔“
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مغرب میں اعتدال پسندوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ’اعتدال پسند‘ انتہائی ’اخلاص‘ اور ’استقامت‘ سے کام کررہے ہیں ۔ اس پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ ڈینیل کا یہ گمان شیعہ مسلمانوں کے بار ے میں تو صحیح ہوسکتا ہے جن کے ہاں تقیہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے بلکہ ان کے ہاں دین کا 10/9 حصہ تقیہ پر مشتمل ہے، لیکن سنی مسلمانوں کے بارے میں کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ جن کے ہاں تقیہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ’ڈینیل پائپس‘ اپنے مقصود اور مدعا کی مزید وضاحت یوں کرتا ہے :
”بنیاد پرستوں کو اب اعتدال پسندی کی ضرورت کا احساس ہورہا ہے اور وہ اب یہ سیکھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اعتدال پسندی کا روپ کس طرح اختیار کیا جائے، اور میرے خیال میں بلا شبہ یہ روپ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گھرا ہوجائے گا جس کی حقیقت کو پہنچاننا مزید مشکل ہوتا جائے گا۔“
دورِ جدید اور صوفی ازم
یہ موضوع بھی اپنی اہمیت کی وجہ سے قدرے تفصیل کا متقاضی ہے۔تصوف یا صوفی ازم دین حق کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔یہ بات اب بہت سے دلائل اور براہین سے واضح ہوچکی ہے کہ امریکی اربابِ دانش کے سامنے مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے کتاب وسنت پر مبنی دینی شعور کی موجودہ صورتِ حال میں صوفی ازم ایک بہترین متبادل راستہ ہے، جس کو مسلمانوں میں پھیلا کر اسلام کے ’خطرہ‘ سے بچا جاسکتا ہے۔
یہاں ہم اس دعویٰ پر کچھ دلائل پیش کرتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ دورِ جدید میں تصوف کے داعیوں کے دو نمونے بھی اپنے قارئین کے سامنے رکھیں۔