کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 31
جیسے اہم اسلامی عقیدہ کو مغربی مفادات کی دہلیز پر قربان کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کسی ایسے اسلامی ادارے یا تحریک سے تعلق رکھنے سے بھی گریز کرتے ہیں جو مغربی حکومتوں کی نظر میں مشکوک ہو۔ ایسے لوگ درحقیقت زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط حقیقی اسلام تک عوام الناس کی رسائی میں رکاوٹ پیدا کرنے والا خطرناک کردار ادا کررہے ہیں ۔ وہ عوام کے پاؤں میں بیڑیاں بن کربیٹھے ہوئے ہیں اور ان کودین داری کے ایک ایسے مرحلے میں روکے کھڑے ہیں جہاں پہنچ کر وہ لادینیت اور اِلحاد سے تو چھٹکارا کسی حدتک پاچکے ہیں ، لیکن اسلام کا وہ مفہوم جو ائمہ اسلاف نے پیش کیا ہے، اس تک نہیں پہنچ پائے۔ یہ مذہبی رہنما زبانِ حال سے اپنے مدعوین کو یہ کہہ رہے ہیں کہ ”ہم آپ کو اس مرحلہ پر صحیح سلامت پہنچنے پر مبارکباد دیتے ہیں ۔ بس یہی آپ کی منزل ہے، اب آپ مکمل دین دار بن چکے ہیں “ اسلامی بیداری یا اصلاح کا مغرب کے ہاں یہی مفہوم اور یہی اس کی سرحد ہے جس سے اس کو… ان کی رائے میں … قطعاً تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ بہت سے مغربی مفکرین اور اہل قلم نے اس حقیقت کا صریحاً اعتراف بھی کیا ہے۔ ’جہاد واچ‘ نامی ویب سائٹ کا ڈائریکٹر رابرٹ سپنسر تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلامی شعور پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے : ”آپ اس کو اسلامی بیداری کہیں یا تحریک ِاصلاح جو بھی کہیں ، اس میں ضروری ہے کہ قرآنی تعلیمات کی حرف بحرف تطبیق کے منہج (سلفیت) کو روکا جائے اور اس کو دوبارہ ظہور پذیر نہ ہونے دیا جائے۔“ جبکہ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ روشن خیالی کے یہ داعی جس قدر بھی ’قربانیاں ‘ پیش کرتے رہیں ، اس وقت تک مغرب کی خوشنودی حاصل نہیں کرسکتے جب تک ایک ایک کرکے تمام اسلامی اقدار کو ترک نہ کر بیٹھیں حتیٰ کہ مکمل طور پر اسلام سے دستبردار ہوجائیں ، اور یہی آخرکار مغرب کا ہدف ہے۔ اسی حوالہ سے اسلام اور مسلمانوں سے زبردست عداوت رکھنے والا’ڈینیل پائپس‘ جس کو