کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 30
کا درس دیتے ہیں اور اپنے تئیں لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کا سلفی مفہوم شدت پسندی پر مبنی ہے۔
2.بعض مسلمہ سیاسی تحریکوں کے ذریعہ لوگوں کے ذہنوں کی اس نہج پر تعمیر کی جارہی ہے کہ سلفی فکر سیاسی طور پر بالکل اپاہج ہے جبکہ دوسری تحریکیں اُن دینی اصول ومبادی کو ’قربان‘ کرنے کی مکمل استعداد رکھتی ہیں جو ’عظیم تر سیاسی مقاصد‘ کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔
3.ایسے تمام سلفی ادارے اور اَفراد جو صرف دعوت کے میدان میں کام کررہے ہیں اور محض دعوتی وعلمی کام میں مصروف ہیں ، ان کو بھی جہاد کے ساتھ جوڑنے اور عسکری عمل سے مربوط کرکے پیش کیا جارہا ہے، اور اس طرح گویا سلفی دعوت اور عسکری عمل کو لازم و ملزوم قرار دیا جارہا ہے اور سلفیت کوعسکریت پسند منہج قرار دیا جارہاہے۔
4. بہت سے اسلامی ممالک میں تصوف کی طرف دعوت دینے والوں کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے اور خاص طور پر صوفی ازم کے ان داعیوں کے لئے جنہوں نے گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد اپنے اندازِدعوت میں واضح تبدیلی پیدا کی ہے اور وہ ہراس بات سے گریز کرتے ہیں جو مغرب کے لئے ناقابل قبول ہو۔ ایسے لوگ اسلام کو ’جدید مفہوم‘ کے غلاف میں پیک کرکے پیش کررہے ہیں تاکہ مغربی ثقافت کے بازار میں اس کی ترویج ہوسکے۔
یہاں پر ہم ’روشن خیالی‘ اور تصوف کے داعیوں کے بارے میں قدرے مزید تفصیل پیش کریں گے :
نام نہاد اعتدال پسندی کے علمبردار
جہاں تک روشن خیالی یا اعتدال پسندی کی طرف بلانے والوں کا تعلق ہے تو گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد ان کا ستارہ کافی چمک اُٹھا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہر اس نقطہ نظر سے احتراز کرتے ہیں جو مغرب کے لئے قابل قبول نہ ہو، اور ان کے ’جذبات‘ کو ذرّہ بھر ٹھیس پہنچانے کا سبب بنے۔ کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں سپرپاور کے قہروغضب کا نشانہ بن سکتے ہیں ۔ یہ روشن خیال دانشور خاص طور پر الولاء والبراء (دوستی اور دشمنی صرف اللہ کے لئے)