کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 28
مفروضے پیش کئے گئے ہیں : 1. مراکش تا انڈونیشیا متحدہ عالمی اسلامی مملکت یا 2. ’دہشت گردی‘ اور لاقانونیت کا عالمی غلبہ یا 3. امریکی اثر ورسوخ سے خالی گلوبلائزیشن (العولمة) کاغلبہ یا 4. دنیا پر واشنگٹن کا کنٹرول اور امریکی تہذیب کا غلبہ اس رپورٹ کی تکمیل کے ساتھ ہی امریکی صدر نے اپنے ہفتہ وار خطاب میں مستقبل کی عالمی اسلامی مملکت کے متوقع قیام کے خطرے سے خبردار کیا۔ امریکہ کا اسلام سے یہ خوف بعض اعتبار سے درست بھی ہے لیکن چند مخصوص مقاصد کی خاطر اس کوبڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا جاتاہے۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی دعوت کے میدان میں بہت سے مناہج و اَفکار کام کر رہے ہیں ، ایسی حالت میں امریکہ کو کس منہج و فکر سے زیادہ خوف لاحق ہے : 1. اسلامی سیاسی تحریکوں اور پارٹیوں سے ؟ 2.سلفی تحریکوں اور اداروں سے ؟ 3. تصوف کے پورے عالم اسلام میں پہیلے ہوئے مختلف سلسلوں سے؟ 4. حکومتوں کے زیر نگرانی دینی اداروں سے ؟ بہت سے امریکی تھنک ٹینکس نے اس سوال کا واضح جواب دیاہے، اور اب سب کا اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ سلفی تحریکیں ہی امریکہ کے لئے سب سے زیادہ خوف اور پریشانی کامرکزی سبب ہیں ۔ یہاں اس اہم حقیقت کا انکشاف ایک اور سوال کو جنم دیتا ہے کہ امریکہ کو لاحق اس ’عظیم خطرہ‘ کامقابلہ کرنے کے لئے کون سا طریقہ بہتر ہوسکتا ہے ؟ 1. سلفیت کے متبادل افکار و مناہج کو رائج کیا جائے یا 2. سلفیت کو اپنے زیر کنٹرول کر کے اس کی سرپرستی کی جائے یا 3. سلفیت پر پابندی عائد کر کے اس کا مکمل صفایا کر دیا جائے ہم آئندہ صفحات میں ان تینوں امکانات (Options)میں سے زیادہ قابل عمل اور