کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 17
قابل افسوس امر یہ ہے کہ آج ہماری قوم میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوچکا ہے جو اُمت ِمسلمہ کے مفادات کا سوداگر بنا بیٹھا ہے ۔اس نے مسلمانوں کے سیاسی مفادات، علاقائی مال و متاع اور مادی وسائل اَغیار کے ہاتھوں بیچ ڈالے ہیں ۔
اے مسلمانو! اب بھی وقت ہے،خوابِ غفلت سے بیدار ہوجاؤ! اپنے حالات کا جائزہ لو۔ اُمت ِ مسلمہ کے مقدمات خیانت و غدر کے بازار میں سستے داموں بیچے جارہے ہیں ۔ ہوش کرو! منافقین اپنے آپ کو منڈیوں میں لے آئے تاکہ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کے معاملات کی منصوبہ بندی کے لئے چلنے والے قلم خرید لیں ۔ ایک اپنا اثرو رسوخ بیچ رہا ہے تو دوسرے نے اپنی فصاحت و خطابت بیچنے کو بازار میں رکھ دی ہے اور کوئی ان کو اپنی ہر چیز چند ٹھیکریوں کے بدلے بیچنے کو تیار ہے۔ان لوگوں نے بے شرمی اور ڈہٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قوم کو، اپنے بھائیوں کے خون اور اُمت ِمسلمہ کے اجتماعی مفادات کو ارزاں کردیا۔
سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اصلاح و دعوت کی حکمت ِ عملی؟اے امت مسلمہ!ہر دعوت کی کامیابی کا انحصار ان مضبوط اور راسخ بنیادوں پر ہوتا ہے جو اس دعوت کی عمارت کو قائم و دائم رکھ سکیں اور اسلامی دعوت کا امتیاز یہی ہے کہ اس کے اثرات واضح اور شفاف ہیں ۔اس کا منہج پرامن ہے اور اس کی طرف بلانے والے وصف صدق سے متصف ہیں ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف ہدایت اور دینِ حق دے کر مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اللہ اور اس کی توحید کی طرف دعوت دی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانے سے منع کیا۔ اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی اساس اور رسالت کی غرض و غایت تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل تمام انبیا کا مشن رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان: ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الأَقْرَبِيْنَ﴾(الشعراء:214) ”اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے پر اُبھارئیے۔“پر عمل کرتے ہوئے اور اُمت کے لئے نمونہ قائم کرنے کے لئے دعوت کی ابتدا اپنے قبیلے اور قریبی رشتے داروں سے کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ایک ایک فرد کو اللہ کا پیغام پہنچایا۔اس وقت تک یہ دعوت مخفی طور پر دی جارہی تھی۔ قریش آپ کی