کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 14
موحد بندوں کے لئے تجویز کیا: ﴿هو سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ هٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾(الحج:78)
”اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (تمہارا نام یہی ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔“
اور ہم اس صالح ومصلح اور عادل شریعت کے حامل ہونے کی وجہ سے لوگوں پر گواہ ہیں ۔
٭ اے مسلمانانِ اسلام!ہر بلند کیا جانے والا نعرہ اور پکار جو اسلام کی روح سے خالی ہو، باطل و مسترد ہے۔ آج ہماری دنیا گروہی، قومی عصبیت اور گروہی نعروں سے گونج رہی ہے۔ اللہ نے اس اُمت کو اسلام کی بدولت عزت و توقیر سے نوازا۔ ہمارے منتشر گروہوں کی شیرازہ بندی کی، ہماری صفوں میں اتحاد پیدا کیا اور ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے اُلفت ڈال دی اور جب ہم نے اسلام سے ناطہ توڑا اور غیروں کے دَر سے عزت ڈھونڈنا چاہی تو اللہ نے ہمیں ذلیل و رسوا کردیا اور آج ہم ہرمحاذ پر غیروں کے ہاتھوں پٹ رہے ہیں ۔
یاد کیجئے! جب عہد ِنبوت میں ایک مہاجر اور انصاری کے درمیان جھگڑا ہوا اور یہ جھگڑا ایسا طول پکڑا کہ مہاجر نے مہاجرین کو ’يا للمہاجرين‘ کہہ کر حمایت کے لئے پکارا، اسی طرح انصاری نے انصار کو ’يا للأنصار‘ کہہ کر مدد کے لئے برانگیختہ کیا۔ آپ نے سنا تو فرمایا: (( أبدعوٰى الجاهلية وأنا بين أظهركم)) ( صحیح بخاری:4905،اسباب نزول للواحدی ص 112)
”یہ جاہلیت (عصبیت) کی پکار کیسی ؟ حالانکہ میں تم میں موجود ہوں ۔“
ہمارے دین میں عصبیت کی قطعاً گنجائش نہیں ،چاہے وہ عصبیت قومیت کی ہو، فارسی ہونے کی یا ترکی ہونے کی ہو اور نہ ہی کسی گزرے ہوئے یا نئے پیدا ہونے والے گروہ کی۔ اسلام نسلی، لسانی عصبیتوں سے مبرا دینی وحدت کا دین ہے، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
﴿وَإِنَّ هٰذِه أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَّاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ﴾ (المومنون:52)
”اور یہ تمہاری اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں پس مجھ ہی سے ڈرو۔“
٭ اے وحدتِ اسلامی کے علمبردارو! وحدت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ۔ اس نے ہم پراحسان فرمایا اور اس وحدت کو قائم کرنے کا حکم دیا: