کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 12
﴿وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حتّٰى يَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ﴾ (البقرة:102)
”اور وہ دونوں (ہاروت و ماروت) کسی شخص کو اس وقت تک (جادو) نہیں سکھاتے تہے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں ۔“
بھائیو! اس حکم کو مانتے ہوئے نجومیوں اور جادوگروں کے دامِ فریب سے بچو،ان کی باتوں کی ہرگز توثیق نہ کرو ،نہ ان کی طرف کان دھرو۔ ان کے چھوڑے ہوئے شوشوں اور اٹکل پچوؤں کومسترد کردو۔ان کی خرافات سے بچنے میں ہی تمہارے ایمان کی سلامتی ہے۔
قرآن کی یہ ہدایات زندگی کے ہر شعبہ کو محیط ہیں اور زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے متعلق اس کی رہنمائی موجود نہ ہو۔ یہ ایسی کتاب ہدایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام بھلائی کی باتیں اس میں جمع کردی ہیں ۔ اللہ نے سچ فرمایا:
﴿إِنَّ هذَا الْقُرْآنَ يَهدِيْ لِلَّتِىْ هىَ أَقْوَمُ﴾ (الاسراء:9)
”یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدہا ہے۔“
موجودہ حالات اور مسلم اُمہ میں اتحاد
مسلمانانِ اسلام! آج پوری دنیا مختلف قسم کے فکری انتشار کی لپیٹ میں ہے اور یہ افکار سیاسی و فلسفی مناہج ، نفع اندوزی کی پالیسی، سوشلزم و کمیونزم، خود پرستی، آزاد روی،نام نہاد روشن خیالی اور اس طرح کی دیگر آزادانہ پالیسیوں پرمشتمل ہیں ۔اس فکری انتشار نے اُمت ِمسلمہ کو سواے مشکلات وابتلا کے کچھ نہیں دیا۔آپ جس طرف بھی نظریں دوڑائیں جنگ و جدل، بہتا ہوا خون، بکھرے ہوئے انسانی اعضا، دہشت گردی، خوف وہراس اور بدامنی کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ سب منتشر خیالی اور کج فکری کا نتیجہ ہے۔ دنیا کو ان پراگندہ افکار سے کیا حاصل ہوا؟ کیاان کو اپنانے سے اُنہیں اسلام کو اپنی زندگیوں سے دیس نکالا نہیں دینا پڑا؟
٭ اے پالیسی سازو!یاد رکھو، دنیا میں امن و امان اور استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس میں الٰہی پالیسیوں کو نافذ نہ کردیا جائے۔ دنیا کو تباہی و بربادی سے بچانے کیلئے قانونِ خداوندی کو مان لینا ناگزیر ہے اور یہ اس ذات کی دی ہوئی پالیسی ہے جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے ، جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اوروہ بہتر جانتا ہے کہ اسکی اصلاح کیسے ممکن ہے؟