کتاب: ماہنامہ شمارہ 307 - صفحہ 11
ہے : ﴿وَالَّذِيْنَ همْ لأَ مَانَاتِهمْ وَعَهدِهمْ رَاعُوْنَ﴾ (المعارج:32) ”جو لوگ اپنی امانتوں کی حفاظت کرتے اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں ۔“ ہر ایک کے ساتھ عدل کا برتاوٴ کریں ۔ دوستی اور دشمنی کو حمایت یا مخالفت کی کسوٹی نہ بنائیں : ﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰى أَلَّا تَعْدِلُوْا،اِعْدِلُوْا هوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى﴾ (المائدة:8) ”(ایمان والو!) کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہی خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔“ خوش اخلاقی کو اپنایا جائے اور جھوٹ کو حرام سمجھا جائے: ﴿إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِآيَاتِ الله﴾ (النحل:105) ”جھوٹ و افترا تو وہی باندہتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں ہوتا۔“ خیانت کو حرام جانا جائے۔فرمایا: ﴿يٰاَيُّها الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَخُوْنُوْا الله وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (الانفال:27) ”اے ایمان والو! جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب نہ ہو۔“ فساد فی الارض کو قبیح عمل سمجھا جائے : ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُه في الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ يُشْهدُ الله على مَا في قَلْبِه وَ هوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ * وَ اِذَا تولي سَعٰى فی الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهاوَيُهلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ وَ الله لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴾(البقرة:204،205) ”لوگوں میں سے وہ شخص بھی ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنی نیک نیتی پر بارباراللہ کو گواہ ٹھراتا ہے، مگر حقیقت میں وہ بدترین دشمن ِحق ہوتاہے اور جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے،کھیتی کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔“ نیز قرآن نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ جادو حرام ہے ، اور اس سے بچنے کی تلقین کی اور اس کے ارتکاب کو کفر قرار دیا :