کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 99
							
						
								
قاضی ابوبکر بن عمر بن حزم انصاری نے اس بنا پر ایک مسلمان آدمی کو قتل کرنے کا فیصلہ دیا کہ اس نے ایک ذمی کو دھوکہ سے قتل کردیا تھا۔[1]
اسلام میں جنگ کا تصور
غیر مسلموں کے حقوق کے سلسلہ میں سب سے زیادہ اسلام کے تصورِ قتال کو مطعون کیا جاتا ہے ،لیکن حقیقت یہ ہے اگر اسلام میں جنگ کے مقاصد کو پیش نظر رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس میں غیر مسلموں کی حق تلفی کا شائبہ بھی موجود نہیں ہے۔
اسلام نے جنگ کے لئے جہاد کا جامع اور مقدس لفظ استعمال کیا ہے ،کیونکہ اسلام میں جنگ نہایت اعلیٰ مقاصد کے لئے لڑی جاتی ہے۔ ذیل میں ہم وہ مقاصد بیان کریں گے جن کی رو سے جنگ نہ صرف جائز بلکہ اخلاقی فرض قرار پاتی ہے :
1. ظلم و تعدی کا جواب :جنگ کا ایک مقصد یہ ہے کہ ظلم و طغیان کو مٹا کر عدل و انصاف قائم کیا جائے اور مظلوموں کو ظالموں کے ظلم سے نجات دلائی جائے کہ ان کی جڑ کٹ جائے اور بندگانِ خدا کو امن واطمینان سے زندگی بسر کرنے کا موقع مل سکے۔ چنانچہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴾ (البقرۃ:۱۹۰)
’’جو لوگ تم سے لڑائی کررہے ہیں ، اللہ کی راہ میں تم بھی ان سے لڑو، البتہ کسی طرح کی زیادتی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ ا ن لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرنے والے ہیں ۔‘‘ نیز فرمایا: 
﴿اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ بِالشَّھْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ وَاتَّقُوْا ﷲَ وَاعْلَمُوْا أنَّ ﷲَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرۃ:۱۹۴)
’’ماہِ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا، لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے، تم بھی اس پر دست درازی کرو، البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں ۔‘‘
2. دغا بازی اور عہد شکنی کی سزا:اسلام میں جنگ کا دوسرا مقصد ان لوگوں کو کیفر کردار تک
						    	
						    